سورة البقرة - آیت 35

وَقُلْنَا يَا آدَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

اور ہم نے آدم (علیہ السلام) سے کہا کہ تو اور تیری جورُو بہشت (ف ٢) میں رہ اور تم دونوں اس میں جہاں چاہو بافراغت (محفوظ) کھاؤ ، لیکن تم دونوں اس درخت کے پاس نہ جانا (ف ١) ورنہ تم دونوں ظالم (گنہگاریا بےانصاف) ہوجاؤ گے ۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 4: اس آیت میں آدم (علیہ السلام) کی تیسری فضیلت کا بیان ہے کہ فرشتوں سے سجدہ کر وانے کے بعد انہیں جنت میں سکونت کی اجازت دی بعض نے اس جنت سے زمین پر کوئی باغ مراد لیا ہے مگر صحیح یہ ہے یہ جنت آسمان پر تھی پھر جس درخت کے قریب جا نے سے آدم کو منع فرمایا ہے اس کی تعیین میں اختلاف ہے حافظ ابن کثیر مختلف اقوال نقل کرنے بعد لکھتے ہیں قرآن نے اس کے نام یا خاصیت کی کوئی تصریح نہیں فرمائی اور نہ کسی حدیث سے اس کی تعیین ہوتی ہے پھر نہ اس کے جاننے میں کوئی علمی یا اعتقادی فائدہ پنہاں ہے اور نہ اس کے نہ جاننے میں کوئی ضرر ہے لہذا بہتر یہ ہے کہ اس کی تعیین سے احتراز کیا جائے یہی رائے حافظ ابن القیم اور امام رازی کی ہے اور اکثر سلف امت کا بھی یہی قول ہے، عصمت انبیاء کے لیے دیکھئے سورت ص اور حوا کی پیدائش کے لیے نساء اور اعراف)