سورة فصلت - آیت 23

وَذَٰلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِي ظَنَنتُم بِرَبِّكُمْ أَرْدَاكُمْ فَأَصْبَحْتُم مِّنَ الْخَاسِرِينَ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

اور تمہارے اسی گمان نے جو تم نے اپنے رب کی نسبت کیا تمہیں ہلاک کیا ہے سو تم زیا نکاڑرمیں (ف 2) ہوگئے۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 7 حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :” تم میں سے کسی شخص کا انتقال نہیں ہونا چاہیے مگر اس حال میں کہ اللہ سے اس کا گمان اچھا ہو، اس لئے کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جن کو اللہ سے ان کا برا گمان ہی لے ڈوبتا ہے، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ ( شوکانی) حسن بصری نے یہ آیت تلاوت کی اور پھر فرمایا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے(أَنَا عِنْدَ ‌ظَنِّ ‌عَبْدِي، وَأَنَا مَعَهُ إِذَا دَعَانِي) ( میں اپنے بندے کے ساتھ ویسا ہی ہوں جیسا وه میرے ساتھ گمان کرے اور میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ مجھ سے دعا کرتا ہے۔) اس کے بعد امام حسن (رض) بصری کچھ دیرخاموش رہے اور پھر بولے ” ہر شخص کا عمل ویسا ہوتا ہے جیسا اس کا اپنے رب سے گمان ہوتا ہے۔ مومن کا اپنے رب سے گمان چونکہ اچھا ہوتا ہے۔ اس لئے اس کا عمل بھی اچھا ہوتا ہے اور کافروں اور منافقوں کا اپنے رب سے گمان چونکہ اچھا نہیں ہوتا اس لئے ان کا عمل بھی خراب ہوتا ہے۔ یہی مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا İ وَمَا كُنْتُمْ ............ الی قوله مِنَ الْخَاسِرِينَĬ (ابن کثیر)