إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ
ہم اپنے رسولوں کی اور مومنین کی حیات دنیا اور جس دن گواہ کھڑے ہوں گے مدد کرتے ہیں
ف ١” اس لئے وہ اپنے دشمنوں پر غالب آتے ہیں“۔ مطلب یہ ہے کہ آخر کار دین حق غالب ہو کر رہتا ہے اور جن پیغمبروں کو شہید کردیا گیا ان کا دشمنوں سے طرح انتقام لیا گیا کہ ان کے دشمنوں پر ایسے لوگوں کو مسلط کیا گیا جو انہیں ذلیل و خوار کرتے رہے۔ چنانچہ جن یہودیوں نے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو سولی دینے کا پروگرام بنایا، ان پر رومیوں کو مسلط کیا گیا جنہوں نے انہیں ہر طریقہ سے ذلیل و خوار کیا اور پھر حق کی فتح کے لئے مادی غلبہ اور نصرت شرط نہیں ہے۔ ف ٢ گواہوں سے مراد فرشتے ہیں جو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے حضور انبیاء ( علیہ السلام) کے حق میں گواہی دینگے کہ انہوں نے اپنی اپنی قوموں تک تیرا پیغام پہنچا دیا تھا اور کافروں کے خلاف یہ گواہی دیں گے کہ انہوں نے تیرے پیغام کو جاننے اور پہچاننے کے بعد بھی ماننے سے انکار کردیا تھا۔ ( شوکانی از مجاہد و سدی)۔