النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا ۖ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ
وہ آگ ہے جس پر صبح وشام پیش کئے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہوگی ۔ کہیں گے کہ فرعونیوں کو سخت عذاب میں داخل کرو
ف ٥ علماء نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ عالم برزخ ( قبر) میں کفار کو عذاب ہو رہا ہے۔ قرآن کی بعض دوسری آیات میں بھی اس کے متعلق اشارات ملتے ہیں اور حدیث میں بھی ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا : موت کے بعد ہر آدمی کو صبح و شام جنت یا جہنم میں اس کا ٹھکانہ دکھایا جاتا یہ اور اس کی دلیل میں یہی آیت تلاوت فرمائی۔ ( شوکانی) یہ آیت مکی ہے اور متعدد طرق حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی عورت میرے پاس آئی اور دوران گفتگو میں اس نے کہا ( وقاک اللہ من عذاب القبر) کہ اللہ تعالیٰ تمہیں عذاب قبر سے محفوظ رکھے مجھے تعجب ہوا اور میں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے یہ واقعہ بیان کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( کذبت الیھودیہ) کہ اس یہودی عورت نے جھوٹ بولاہے مگر چند روز کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ دیا اور فرمایا ” لوگو عذاب قبر سے پناہ مانگا کرو۔ بے شک عذاب قبر بر حق ہے“۔ علماء نے لکھا ہے کہ آیت اور حدیث میں تعارض نہیں ہے۔ آیت سے صرف ارواح کا صبح و شام معذب ہونا ثابت ہوتا ہے اور احادیث سے روح مع الجسد کا جس کا علم بذریعہ وحی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مدینہ میں اس یہودیہ کے واقعہ کے بعد ہوا ہوگا۔ ( ابن کثیر) علماء نے اہل سنت کے نزدیک عذاب قبر بر حق ہے اور اس کا انکار بدعت ہے۔ امام سیوطی (رح) نے اپنے رسالہ ” شرح الصدور“ میں ان تمام احادیث کو یکجا کردیا ہے جو اس مسئلہ سے متعلق ہیں۔ علی قاری (رح) نے بھی شرح مشکوٰۃ میں مفصل بحث کی ہے۔ ( منہ (رح) ف ٦” تو فرشتوں کو حکم دیا جائے گا۔۔۔۔۔ “ ف ٧ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار کی نیکیوں کی وجہ سے ان کے عذاب میں تخفیف کردی جائے گی اور ابو طالب کے متعلق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ( واھون عذابا) فرمایا ہے مگر قرآن کی روایات سے ثابت ہے کہ آخرت میں کافر کا کوئی عمل قابل قبول نہ ہوگا۔ ابو طالب کے قصہ کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خاصہ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کے ساتھ نیکی کا بدلہ ہے یا ان روایات کے پیش نظر یہ کہہ سکتے ہیں کہ کافر کی نیکی قبول نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی مرحلہ پر بھی اس کے لئے نجات کا سبب نہیں بن سکے گی اور وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ بعض نیک اعمال بعض اشخاص کیلئے آخرت میں تخفیف عذاب کا سبب بن جائیں جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے۔ ( شرح مسلم للنوید و فتح الباری)