سورة آل عمران - آیت 118

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا بِطَانَةً مِّن دُونِكُمْ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا وَدُّوا مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ ۚ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآيَاتِ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْقِلُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

مومنو ! اپنے غیر کو بھیدی نہ بناؤ وہ تمہاری خرابی میں کوتاہی نہیں کرتے اور چاہتے ہیں کہ تم کو تکلیف پہنچے ، ان کے مونہوں سے دشمنی نکلی پڑتی ہے ۔ اور جو ان کے دلوں میں چھپا ہے وہ اس سے زیادہ ہے ، ہم نے تم کو پتے بتلا دیئے ، اگر تم کچھ عقل رکھتے ہو ۔ (ف ٢)

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 2 بطا نتہ (راز ور) یہ باب نصر سے مصدر ہے اور واحد جمع دونوں پر بولا جاتا ہے۔ من دونکم (مسلمانوں کے سوا) اس کا تعلق آیت وان تطیعو افریقامن الذین اوتوا الکتاب سے ہے اور اس میں کفار کی طرف میلان سے ممانعت کی تاکید کی ہے۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اسلام سے پہلے مدینہ کے انصار اور یہود کے درمیان میل جول اور دوستانہ تعلقات قائم تھے پھر جب یہ لوگ مسلمان ہوگئے تو تب ان میں سے بعض لوگوں نے یہود یوں سے ذاتی تعلقات برقرار کھے جن کی وجہ سے بعض راز کی باتیں بھی ان پر افشا کردیتے اس پر یہ آیت نازل ہوئی (ابن جریر) مگر یہ آیت عام ہے اور یہو و نصاری منافقین اور مشرکین سبھی من دونکم میں داخل ہیں اس بنا پر حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ اسلامی حکومت میں کسی اسامی پر غیر مسلم سے مشورہ لینا منع ہے۔ (قرطبی۔ ابن کثیر) ف 3 خبالا فاساد اور شرارت اس میں مذکور (لاتتخذوابطانتہ) کی وجہ اور علت کی طرف سے اشارہ ہے یعنی اگرچہ یہ لوگ اپنی منافقت کی بنا پر تم سے ایسی باتیں کرنا نہیں چاہتے جن سے تمہیں ان کی اسلام دشمنی کا پتہ چل شکے مگر شدت عداوت کیوجہ سے ان کی زبان پر ایسے الفاظ آہہی جاتے ہیں جن سے تم اندازہ کرسکتے ہو کہ یہ تمہارے خیر خواہ نہیں بلکہ بد ترین دشمن ہیں اور تمہارے خلاف جو جذبات اپنے دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں وہ اس سے کہیں بڑھ کر ہیں۔ (خازن) یعنی کفار سے ترک موالات کے سلسلہ میں یہود یوں کے بغض و عناد اور ان کے دلی حسد سے متعلق ہم نے پتے ی باتیں کہہ دی ہیں اب غور و فکر کرما تمہا را کام ہے۔ (روح )