سورة الصافات - آیت 88

فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

پھر تاروں (ف 2) پر ایک بار نگاہ کی

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف ١٢ یہاں سے حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے جس واقعہ کا ذکر کیا جا رہا ہے اس کی تفصیل سورۂ انبیاء آیت (٥١، ٧٣) میں بھی گزر چکی ہے۔ ف ١٣ اکثر مفسرین (رح) نے لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کی قوم کے لوگ بتوں کے علاوہ ستاروں کی بھی پرستش کیا کرتے تھے اور ستاروں کی گردش کی حادث زمانہ میں اور موثر مانتے تھے۔ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے انہیں مغالطے میں ڈالنے کیلئے ستاروں پر ایک نظر ڈالی تاکہ وہ سمجھیں کہ ستاروں سے اپنا آئندہ حال معلوم کررہے ہیں۔ بعض نے لکھا ہے کہ یہ محاورہ ہے جو غور و فکر کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے سوچتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھا جیسا کہ ہر شخص جب کوئی غور طلب معاملہ آتا ہے تو آسمانکی سمت یا اوپر کی طرف دیکھتا ہے واللہ اعلم۔ ( ابن کثیر)