فَمَنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ مِن بَعْدِ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ
پھر اس کے بعد جو کوئی اللہ پر جھوٹ باندھے وہی ظالم ہے ۔
ف 6 اوپر کی آیات میں آنحضرت ﷺ کی نبوت کے اثبات کے اثبات میں دلائل پیش کیے اور اہل کتاب پر الزامات قائم کیے ہیں۔ اب یہاں سے انکے شہبات کا جواب ہے ج وآنحضرت ﷺ کی نبوت پر پیش کرتے تھے۔ (کبیر) جب قرآن نے بیان کیا کہ یہود کے ظلم وبغی کو جہ سے بہت سی چیزیں ان پر حرام کردی گئیں۔ (النسائ آیت 160 الا نعام آیت 146) اور نہ یہ چیزیں حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے عہد نبوت میں حلال تھیں تو یہود نے ان آیات کی تکذیب کی اور کہنے لگے کہ یہ چیزیں تو حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے وقت سے حرام چلی آتی ہیں اس پر یہ آیات نازل ہوئیں (شوکانی) بعض مفسرین نے ان آیات کل الطعام تا الظالمون کی شان نزول میں لکھا ہے کہ یہود تو رات میں نسخ کے قائل نہیں تھے اور حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کی تکذیب بھی یہود نے اسی لیے کہ تھی کہ وہ تورات کے بعض محرکات کو حلال قرار دیتے ہیں اسی طرح انہوں نے قرآن کے ناسخ منسوخ پربھی اعتراض کیا تو ان کے جواب میں یہ آیات نازل ہوئیں کہ یہ نسخ تو خود تمہاری شریعت میں بھی موجود ہے جب تک تورات نازل نہیں ہوئی تھی تمام ماکولات تمہا رے لیے حلال کی تھیں بعض اونٹ کا گوشت اور دودھ شامل ہے پھر جب یعقوب ( علیہ السلام) عراق النسا کے مرض میں مبتلا ہوئے تو انہوں صحت یاب ہونے پر بطور نذر اونٹ کا گوشت حرام قرار دے لیا تھا ( اور تحریم حلا لکی یہ نذر ان کی شریعت میں رواتھی خود آنحضرت ﷺ نے بھی ایک واقعہ میں شہد پینے کو اپنے اوپر حرام قرار دے لیا تھا گو یہ نذر نہ تھی مگر قرآن نے اس قسم کی نذر اور تحریم حلال سے منع فرمادیاے اور کفارہ مقرر کردیا سورالتحریم پھر جب تورات نازہوئیہ تو اس میں اونٹ کا گوشت اور دودھ حرام قرار دے دیا گیا۔ (ابن کثیر۔ الکشاف بعض نے لکھا ہے کہ یہود آنحضرت ﷺ کی نبوت کے سلسلہ میں اعتراض بھی کرتے رتھے کہ یہ پیغمبر ﷺ خود کو ملت ابراہیمی کی اتباع کا مدعی بتاتا ہے اور اونٹ کا گوشت کھاتا ہے حالا نکہ یہ گوشت ملت ابراہیمی میں حرام ہے اس پر یہ آیات نازل ہوئیں کہ نزول تورات سے قبل تو یہ سب چیزیں حلال کی تھیں پھر ملت ابراہیمی میں یہ کیسے حرام ہو سکتی ہیں اگر اپنے دعوی میں سچے ہو تو تورات میں دکھاو ورنہ اللہ تعالیٰ کے متعلق اس قسم کی افرا بردازی سے باز رہو (ابن کثیر )