لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ۚ وَمَا تُنفِقُوا مِن شَيْءٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ
جب تک تم اپنی پیاری چیزوں میں سے خرچ نہ کرو ‘ بھلائی کو ہرگز حاصل نہیں کرسکتے اور جو تم خرچ کرتے ہو ‘ وہ اللہ کو معلوم ہے (ف ١)
ف 1 پہلی آیت میں بیان فرمایا ہے کہ کافر کا انفاق سے کچھ بھی نفع نہیں ہوگا اب اس آیت میں مومنین کو انفاق کی کیفیت بتلائی جس سے وہ آخرت میں منتفع ہوں گے۔ (کبیر) یہاں ما تحبون عام ہے یعنی مال ودولت اور جاہ و عزت سب کو شامل ہے خطاب یہود سے ہو تو ان کو تنبیہ ہوگی کہ جب تک کہ اپنی جاہ و ریاست کو خیر باد کہہ کر آنحضرت ﷺ کی اتباع اختیار نہیں کرو گے تم ابرار اور مومنین کے زمرہ میں شامل نہیں ہو سکتے (موضح) اور اگر خطاب مومنین سے ہوجیسا کہ عموما تفاسیر میں مذکور ہے تو مقصد یہ ہوگا جو کچھ بھی فی سبیل اللہ صرف کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے اور انسان کو بشرطیکہ مسلمان ہو اخلاص سے خرچ کرے) اس کے بدلہ ضرور ملے گا مگر نیکی میں کامل جو درجہ حاصل کرنے کے لیے ضرور ہے کہ عزیز ترین چیز صرف کی جائے۔ حدیث میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت ابوطلحہ انصاری (رض) آنحضرت ﷺ میری محبوب ترین جائداد بیرحا (باغ) ہے جو عین مسجد نبوی کے سامنے ہے سو یہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ ہے۔ (شوکانی۔ ابن کثیر) بعض روایات میں ہے کہ حضرت عمر (رض) نے بھی اس آیت سے متا ثر ہو کر خیبر میں اپنا حصہ وقف کردیا تھا۔ (ابن کثیر )