سورة فاطر - آیت 41

إِنَّ اللَّهَ يُمْسِكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ أَن تَزُولَا ۚ وَلَئِن زَالَتَا إِنْ أَمْسَكَهُمَا مِنْ أَحَدٍ مِّن بَعْدِهِ ۚ إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

بے شک اللہ آسمانوں اور زمین کو تھامے ہوئے ہے کہ ٹل نہ جائیں اور اگر وہ دونوں مل جائیں تو اللہ کے سوا کوئی نہیں کہ ان دونوں کو تھام سکے بےشک وہ تحمل (ف ! ) والا بخشنے والا ہے

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف ٣ ان کے معبودوں سے خلق و قدرت کی نفی کے بعد اب اللہ تعالیٰ کی قدرت کو بیان فرمایا۔ یعنی جس طرح یہ حقیقت ہے کہ آسمان و زمین کا بنانے والا صرف اللہ ہے اور اس کے سوا کوئی ان کا بنانے والا اور اس نظام کو چلانے والا نہیں ہے۔ اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی زمین و آسمان کو اپنی قدرت سے تھامے ہوئے ہے۔ کوئی دوسرا ان کے تھامنے اور ان کا نظام چلانے میں اس کا شریک نہیں ہے۔ ف ٤ یعنی اللہ تعالیٰ کا حلم اور اس کی مغفرت نہ ہوتی تو بندوں کا کفر و عصیان ( خصوصاً شرک) اس بات کا متقاضی ہے کہ آسمان و زمین اپنی جگہ پر قائم نہ رہیں جیسے فرمایا (تکاد السموات یتفطرن منہ وتنشق الارض و تخر الجبال ھدا ان دعوا اللرحمن ولدا) (مریم : ٩، ٩١) یا مطلب یہ ہے کہ مشرکین اپنے شرک و عصیان کی وجہ سے اس امرکے مستحق ہوچکے ہیں کہ آسمان کو گرا کر ان کو تباہ و برباد کردیا جائے اور زمین ویرانہ بن جائے۔ مگر اللہ تعالیٰ اپنے حلم و مغفرت کی وجہ سے ان کو تھامے ہوئے ہے۔ اگر یہ اپنی جگہ سے ٹلا گئے تو کوئی طاقت نہیں جو ان کو تھام سکے۔ ( کبیر وغیرہ)