قُلْ مَن يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ قُلِ اللَّهُ ۖ وَإِنَّا أَوْ إِيَّاكُمْ لَعَلَىٰ هُدًى أَوْ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
تو کہہ آسمانوں اور زمین میں سے تمہیں رزق کون دیتا ہے ؟ تو کہہ کہ اللہ اور یا ہم تم البتہ ہدایت پر ہیں یا صریح گمراہی میں (آخر کوئی تو سچاہے ذرا سوچو)
ف ٤ ہر عقلمند آدمی سمجھ سکتا ہے کہ ہدایت پر وہی ہوگا جو اللہ تعالیٰ کو زمین و آسمان کا خالق ماننے کے بعد اس کی عبادت بھی کرتا ہے۔ اور وہ شخص یقیناکھلی گمراہی میں ہوگا جو اللہ تعالیٰ کو زمین و آسمان کا خالق تو مانتا ہے مگر عبادت دوسروں کی کرتا ہے۔ اسی چیز کو آیت میں صراحتاً کہنے کی بجائے کنایۃً بیان کیا گیا ہے کیونکہ یہ انداز کلام مخاطب کو زیادہ اپیل کرنیوالا ہے۔ ( کبیر) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” اس میں ان کا جواب ہے جو اس زمانے میں بعض لوگ کہتے ہیں دونوں فرقے ہمیشہ سے چلے آئے ہیں کیا ضرورہے جھگڑنا ( موضح)