فَأَعْرَضُوا فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ سَيْلَ الْعَرِمِ وَبَدَّلْنَاهُم بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ ذَوَاتَيْ أُكُلٍ خَمْطٍ وَأَثْلٍ وَشَيْءٍ مِّن سِدْرٍ قَلِيلٍ
پھرانہوں نے منہ موڑا تو ان پر ہم نے زور کا نالا چھوڑ دیا اور ان کے دو باغوں کے عوض ہم نے ان کو اور دو باغ بدل دیئے ۔ جن کامیوہ کسیلا اور جھاؤ اور کچھ تھوڑے سے بیر تھے۔
ف 1یعنی بندگی و شکر گزاری کی بجائے کفر و نا شکری کی روش اختیار کرلی۔ ف 2 یعنی بلند وادیوں سے آنے والے پانی کو روک کر مآرب کے پہاڑوں کے درمیان جو بند انہوں نے باندھا تھا اور جس سے وہ اپنے باغوں کو سال بھر سیراب کرتے تھے اسے توڑ کرہم نے زور کا سیلاب بھیجا جس نے ان کے باغ اور مکان سب تباہ کر ڈالے۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ یہ ” سدمآرب“ بلق کے پہاڑوں کے درمیان تقریباً 800 ق م باندھا گیا تھا جو ایک سو پچاس فٹ لمبی اور پچاس فٹ چوڑی دیوار ہے تقریباً پانچویں صدی عیسوی کے وسط میں یہ بند ٹوٹ گیا جس سے ملک کا تمام نظام آبپاشی تباہ و برباد ہوگیا۔ اس بند کی دیوار کا کچھ حصہ تا حال باقی ہے۔ پوری تفصیلات ” ارض القرآن“ میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ ف 3 یعنی یا تو ان کے دائیں بائیں ایسے باغ تھے جن میں طرح طرح کے عمدہ اور مزید ار پھل پیدا ہوتے تھے یا جب سیلاب آیا اور اس نے پہلے باغ تباہ کردیئے تو انہوں نے نئے باغ لگائے مگر ان میں کوئی مزیدار پھیل پیدا نهیں هو۔ کچھ خراب قسم کے پھل اور کچھ جھاڑی بوٹی کے بیر رہ گئے۔