سورة الأحزاب - آیت 51

تُرْجِي مَن تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَن تَشَاءُ ۖ وَمَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكَ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن تَقَرَّ أَعْيُنُهُنَّ وَلَا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِمَا آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَّ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا فِي قُلُوبِكُمْ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَلِيمًا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

ان عورتوں میں سے جسے تو چاہے علیحدہ رکھ دے اور جسے چاہے اپنی طرف جگہ دے اور جن کو تونے علیحدہ کردیا تھا اگر ان میں سے تو کسی کی خواہش کرے تو تجھ پر کچھ گناہ نہیں ۔ اس میں زیادہ قریب ہے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور غم نہ کریں اور وہ سب اس پر جو تونے انہیں دیا راضی رہیں اور اللہ چاہتا ہے جو تمہارے دلوں میں ہے اور اللہ جاننے والا بردبار ہے

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف ٩ لیکن اس کے باوجود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی بیویوں کے درمیان باری اور تقسیم میں مساوات قائم رکھتے۔ بعض نے اس سے خاص کردہ عورتیں مراد لی ہیں جو اپنے تئیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہبہ کریں مگر جمہور علمائے تفسیر (رح) کے نزدیک یہ آیت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دوسری ازواج (رض) کو بھی شامل ہے اور ان کو بھی جو اپنے تئیں ہبہ کریں۔ ان سب کے بارے میں اختیار دیا گیا ہے کہ انکے درمیان باری مقرر فرمائیں یا نہ فرمائیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر واجب نہیں ہے، ابن جریر (رض) نے اسی کو اختیار کرلیا ہے اور اس سے مختلف احادیث کے درمیان تطبیق بھی ہوجاتی ہے۔ ( ابن کثیر، شوکانی) ف ١٠ کیونکہ یہ جان لیں گی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی طرف سے ایسا نہیں کرتے بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کا اختیار دیا ہے ( شوکانی) ف ١١ یعنی جب پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوئی عنایت فرمائیں گے وہ شکر گزار ہوگی کیونکہ اسے معلوم ہوگا یہ مہربانی کسی وجوب کی بناء پر نہیں ہے بلکہ اپنی مرضی اور اختیار سے کر رہے ہیں۔ ( قرطبی) ف ١٢ یعنی بیویوں سے بعض کی طرف تمارے دلی میلان کا اللہ تعالیٰ کو علم ہے اور چونکہ تمہیں اس پر اختیار نہیں ہے اس لئے اللہ تعالیٰ تحمل برتنے والا ہے۔ حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نان و نفقہ اور دیگر ظاہری امور میں اپنی سب بیویوں کے درمیان یکساں تقسیم قائم رکھتے اور چونکہ دل سب کی طرف یکساں مائل نہیں ہوسکتا اس لئے دعا فرماتے کہ اے اللہ جو میرے اختیار میں نہیں ہے اس پر مجھے ملامت نہ فرما۔ ( ابن کثیر)