سورة آل عمران - آیت 64

قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ ۚ فَإِن تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

کہہ اے اہل کتاب ایک بات کی طرف آؤ ، جو ہم میں اور تم میں برابر ہے کہ ہم خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ بنائیں ، اور ہم سے کوئی کسی کو خدا کے سوا پروردگار نہ ٹھہرائے پھر اگر وہ منہ موڑیں تو تم یوں کہو کہ تم گواہ رہو کہ ہم فرمانبردار ہیں (ف ١)

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 3 یعنی اہل کتاب کو اس مشترکہ عقیدہ کی طرف دعوت دو۔، چنانچہ آنحضرت ﷺ نے جب ہر قل (شاہ روم) کو خط لکھا تو یہی آیت لکھ کر اس کے سامنے دعوت اسلام پیش کی جیسا کہ صحیح بخاری میں مذکور ہے۔ اور مدینہ کے یہود کے سامنے بی اسی کلمہ سوائ کی دعوت پیش کی اور آپس میں ایک دوسرے کو رب بنانے کے مفہوم میں سجدہ کرنا بھی شامل ہے۔، اور یہ بھی کہ کسی کے قول کو بلاد لیل اسی طرح مان لینا کہ جس چیز کو حلال کہے اسے حلال سمجھا جائے اور جس چیز کو حرام کہے اسے حرام خیال کیا جائے اور کتاب وسنت سے صرف نظر کرلی جائے۔ مزید دیکھئے۔ التو بہ آیت :31۔ (شوکانی۔ وحیدی بتصرف) حاٖفظ ابن کثیر (رح) نے اس آیت پر ایک اشکال پیش کیا ہے اور وہ یہ کہ محمد بن اسحاق نے اس آیت کے مطابق اگر آل عمران کی ابتدائی 83 آیتوں کا سبب نزول وفد نجران کی آمد کو قرار دیا جائے جو بالا تفاق 5 ھ میں مدینہ آیا تو پھر آپ ﷺ نے ہر قل کی طرف یہ آیت کیسے لکھ کر بھیج دی جو 7 ھ کا واقعہ ہے۔ پھر اس کے چار حل پیش کیے ہیں۔ فی الجملہ یہ کہ آیت 1 کا نزول دو مرتبہ تسلیم کیا جائے یا 2 38 آیتوں کی تعین کو محمد بن اسحق کا وہم قرار دیا جائے۔ آنحضرت ﷺ نے دعوت اسلام کے لیے یہ جملے اپنے طور پر لکھ کر بھیجے ہوں۔ بعد میں یہ آیت اس کے مطابق نازل ہوئی ہوجیساکہ بہت سے آیات حضرت عمر (رض) کے موافق نازل ہوئیں۔ ہوسکتا ہے کہ وفد نجران کی آمد صلح حدیبیہ سے قبل ہو۔ (ابن کثیر) ف 4 یعنی اگر اہل کتاب اس عقیدہ کے ماننے سے انحراف کریں تو تم اپنی طرف سے عقیدہ پر قائم رہنے کا اعلان کردو۔ اس میں متتبہ کیا ہے کہ اہل کتاب اس عقیدہ سے منحرف ہوچکے ہیں کیونکہ انہوں نے حضرت عزیر ( علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کے بیٹے قرردے لیا تھا۔ (ابن کثیر۔)