أَشِحَّةً عَلَيْكُمْ ۖ فَإِذَا جَاءَ الْخَوْفُ رَأَيْتَهُمْ يَنظُرُونَ إِلَيْكَ تَدُورُ أَعْيُنُهُمْ كَالَّذِي يُغْشَىٰ عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ ۖ فَإِذَا ذَهَبَ الْخَوْفُ سَلَقُوكُم بِأَلْسِنَةٍ حِدَادٍ أَشِحَّةً عَلَى الْخَيْرِ ۚ أُولَٰئِكَ لَمْ يُؤْمِنُوا فَأَحْبَطَ اللَّهُ أَعْمَالَهُمْ ۚ وَكَانَ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا
(وہ) تم مسلمانوں کے ساتھ بخل کرتے ہیں پھر جب ڈر کا وقت آتا ہے تو تو ان کو دیکھتا ہے وہ تیری طرف تکتے ہیں ان کی آنکھیں اس شخص کی طرح پھرتی ہیں جس پر موت (ف 1) کی بےہوشی طاری ہو ۔ پھر جب خوف چلاجاتا ہے تو مال غنیمت پر بخیلی کرتے ہوئے تیز زبانوں سے چڑھ چڑھ بولتے ہیں ۔ وہی ہیں جو ایمان لائے ۔ سو اللہ نے ان کے عمل اکارت کردیئے ۔ اور یہ اللہ پر آسان ہے۔
ف11 یعنی اپنی جانیں تو کیا پیش کریں گے تم سے اپنے مال، اوقات، محنتیں غرض ہر چیز بچا کر رکھنا چاہتے ہیں۔ ف1 یعنی خطرہ کا وقت گزر جاتا ہے اور مسلمانوں کو فتح نصیب ہوتی ہے اور مال غنیمت ہاتھ آتا ہے۔ ف 2 یعنی بہادری کے بلند بانگ دعوے کرنے لگتے ہیں اور چرب زبانی سے تمہارا منہ بند کرنا چاہتے ہیں کہ تم ان کی اس روش پر اعتراض نہ کرسکو جو خطرہ کے وقت انہوں نے اختیار کی تھی۔ ( ابن کثیر وغیرہ) ف3یا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ نے ان کے اعمال کے باطل ( کالعدم) ہونے کو ظاہر کردیا کیونکہ ان کے اعمال نیک تھے ہی نہیں کہ انہیں باطل کیا جاتا ہے۔ ( شوکانی) ف 4 یا انکے اعمال کے باطل ہونے کو ظاہر کرنا آسان ہے۔