سورة الأحزاب - آیت 6

النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ ۖ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ ۗ وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ إِلَّا أَن تَفْعَلُوا إِلَىٰ أَوْلِيَائِكُم مَّعْرُوفًا ۚ كَانَ ذَٰلِكَ فِي الْكِتَابِ مَسْطُورًا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

نبی کا مسلمانوں پر ان کی جانوں سے زیادہ لگاؤ ہے اور اس کی عورتیں ان کی مائیں ہیں ، اور رشتہ دار اللہ کی کتاب کے مطابق مومنین (ف 2) اور مہاجرین سے زیادہ ایک دوسرے کا لگاؤ رکھتے ہیں ۔ مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں سے کچھ احسان کرنا چاہو ۔ یہ کتاب میں لکھا ہے

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف ٩ کیونکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) روحانی زندگی بخشتے ہیں۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں، اجنبی نائب ہے اللہ کا اپنی جان مال میں اپنا تصرف نہیں چلتا جتنا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنی جان دہکتی آگ میں ڈالنی روا نہیں اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم کرے تو فرض ہے“۔ اسی لیے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کے دل میں میری محبت، اس کے باپ اور اطاد کی محبت سے حتیٰ کہ خود اس کی اپنی ذات کی محبت سے بڑھ کر نہ ہوجائے۔ (شوکانی) ف ١٠ یعنی تعظیم و تکریم اور حرمت نکاح کے اعتبار سے باقی رہے۔ دوسرے احکام ( مثلاً پردہ، ان کی اولاد سے شادی) سو ان میں ماں کی طرح نہیں ہیں۔ (شوکانی)۔ ف ١ ہجرت کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مہاجرین (رض) اور انصار (رض) مدینہ کے درمیان بھائی چارہ قائم کردیا تھا جس کی بناء پر وہ ایک دوسرے کے وارث بھی ہوتے تھے۔ سورۃ احزاب کی اس آیت سے یہ وارثت منسوخ کردی اور رشتہ داروں کو وارث قرار دیا گیا۔ دیکھئے سورۃ انفال، ٢٧، ٤٨( ابن کثیر )