اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۖ مَا لَكُم مِّن دُونِهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا شَفِيعٍ ۚ أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ
اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین اور ان چیزوں کو جو ان کے درمیان ہیں چھ (ف 2) دن میں پیدا کیا ۔ پھر تخت پر قرار پکڑا ۔ اس کے سوا تمہارے لئے کوئی دوست اور سفارشی نہیں ہے ۔ پھر کیا تم نصیحت پذیر نہیں ہوتے ؟۔
ف 10 ” چھ دنوں“ سے مراد دنیا کے چھ دن نہیں بلکہ چھ ادوار ہیں یا آخرت کے چھ دن (دیکھیے سورۃ اعراف آیت 54) ف 1یعنی ساری مخلوق سے الگ عرش پر ہے۔ بہت سی احادیث اور آثار و اقوال سے بھی اللہ تعالیٰ کا عرش پر ہونا ثابت ہے۔ حافظ ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ سلف کا اس پر اجماع ہے۔ حافظ ابن قیم’’ اغاثہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ارسطو سے پہلے تمام فلاسفہ حدوث عالم کے قائل تھے اور یہ کہ صانع عالم موجود اور تمام مخلوق سے الگ ہے اور اپنی ذات سے آسمانوں اور تمام جہاں کے اوپر ہے۔ الغرض سارے اہل شریعت اور عقلا اسی عقیدہ پر متفق چلے آتے ہیں، صرف معتزلہ نے اس صفت کی نفی کی ہے، پھر متأخرین اشاعرہ ان کے تابع ہوئے۔ از حاشیہ جامع البیان ( نیز دیکھئے سورۃ بقرہ آیت 29، سورۃ اعراف آیت 54 و طہٰ آیت 5)۔ ف 2 یعنی اگر وہ تمہیں عذاب دینا چاہے تو کوئی نہیں جو تمہاری مدد کرکے تمہیں اس سے چھڑاسکے یا خود اس کے اذن کے بغیر اس سے تمہاری سفارش کرسکے۔