وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَىٰ وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ
اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے بارہ میں نصیحت کی ۔ اس کی ماں نے تھک تھک کر اسے پیٹ میں اٹھایا اور اس کا دودھ چھڑانا دو برس میں ہے ، (سوائے انسان تاکید سے) کہ میرا اور اپنے والدین کا شکر کر ۔ آخر میری ہی طرف لوٹ (ف 1) کر آنا ہے
ف 4 اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کے ساتھ والدین کی شکر گزاری کا حکم دینا ان کے حق کے بڑا ہونے کی دلیل ہے۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں :” یہ کلام بیچ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ لقمان نے بیٹے کو ماں باپ کا حق نہ کہا تھا کہ اپنی غرض معلوم ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شرک سے پیچھے اور نصیحتوں سے پہلے ماں باپ کا حق نہ کہا تھا کہ اپنی فرض معلوم ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شرک سے پیچھے اور نصیحتوں سے پہلے ماں باپ کا حق فرما دیا کہ اللہ کے حق کے بعد ماں باپ کا حق ہے اور رسول اور مشرد کا حق اللہ ہی کی طرف سے ہے کہ اس کے نائب ہیں۔ (نیز دیکھیے سورۃ اسرائیل آیت 24۔23 و عنکبوت آیت 8) ف 5 اس لئے معلوم ہوا کہ بچے کی مدت رضاعت دو سال ہے اور اس کو سورۃ بقر میں رضاعت کی زیادہ سے زیادہ مدت قرار دیا گیا ہے۔ دیکھیے آیت 233) سورۃ لقمان کی اس آیت سے حضرت ابن عباس اور دوسرے اہل نے یہ استنباط بھی کیا ہے کہ حمل کی کم سے کم مدت چھ ماہ ہے۔ جیسا کہ سورۃ احقاف کی آیت وحملہ و فصالہ ثلاثون شھراً سے معلوم ہوتا ہے۔ (ابن کثیر) ف 6 تاکہ تیرے اعمال کا حساب لیا جائے۔ اگر شکر کرے گا تو اس کی جزا اور ناشکری کرے گا تو اس کی سزا پائے گا۔ “