وَلَقَدْ آتَيْنَا لُقْمَانَ الْحِكْمَةَ أَنِ اشْكُرْ لِلَّهِ ۚ وَمَن يَشْكُرْ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ
اور ہم نے لقمان کو عقل مندی دی کہ اللہ کا شکر کرتا ہے تو وہ اپنے ہی نفع کے لئے شکر کرتا ہے اور جو کوئی کفر کرتا ہے اللہ بےپرواہ قابل تعریف (ف 2) ہے۔
ف 4 حضرت لقمان کے بارے میں عکرمہ کے سوا باقی تمام مفسرین کا خیال ہے کہ وہ نبی نہ تھے بلکہ ایک نیک و دانا شخص تھے جو سوڈانی (حبشی) نسل سے تھے۔ ایک مرفوع روایت میں بھی ان کے حبشی ہونے کا ذکر ہے۔ مقاتل نے کہا ہے کہ وہ حضرت ایوب(علیه السلام) کے بھانجے تھے ایک ہزار سال کی عمر پائی حضرت دائود(علیه السلام) کے زمانہ میں یہ بنی اسرائیل کے قاضی تھے لیکن ان کے بعد عہدہ قضا سے الگ ہوگئے (ابن کثیر) اکثر مفسرین کا خیال ہے کہ وہ آزاد نہیں بلکہ غلام تھے۔ (روح المعانی) نبی ﷺ کی بعثت سے پیشتر بھی ان کی حکمت اور دانائی کے واقعات عرب میں مشہور تھے اور جاہلی شعرأ و ادبأ اپنے کلام میں ان کا ذکر کرتے تھے جیسا کہ ابن ہشام نے اپنی سیرت میں نقل کیا ہے۔ (دیکھیے ج1، ص 247) ف 1 یہ فرمانا بذریعہ الہام تھا یا خود حکمت دیئے جانے کا لازمی نتیجہ تھا۔ ف 2 وہ بذات خود محمود ہے اس کو نہ کسی کے شکر کی پرواہ ہےا ورنہ کسی کی ناشکری کی۔