سورة لقمان - آیت 6

وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

اور آدمیوں میں کوئی ہے کہ کھیل کی بات خریدتا ہے ، تاکہ خدا کی راہ سے بےسمجھے (ف 2) گمراہ کرے اور اسے ٹھٹھے میں اڑائے ایسوں ہی کو ذلت (ف 1) کا عذاب ہوگا۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 1 حسن بصری فرماتے ہیں’’ لَهْوَ الْحَدِيثِ‘‘(واہی باتوں) سے مراد وہ تمام فضول اور بے ہودہ باتیں ہیں جو آدمی کو اپنے میں مشغول کر کے نیکی اور بھلائی کے راستہ سے روک دیں جیسے جھوٹے افسانے، ناول، قصے کہانیاں، ہنسی مذاق ،گانا بجانا اور اسی طرح کی دوسری چیزیں۔ فا الاضافة ‌بمعنى ‌من ‌البيانية او التبعیضیۃ بناء علی مذھب ابن کیسان بمعنی الام علی مذھب اکثر المتأخرین وھو الاصح (کذافی الروح) اکثر صحابہ و تابعین نے اس کی تفسیر خاص طور پر ” گانا بجانا“ سے کی ہے۔ (قرطبی) حضرت عبداللہ بن مسعود سے پوچھا گیا کہ اس آیت میں ” لَهْوَ الْحَدِيثِ “ سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے تین مرتبہ زور دے کر فرمایا :” ‌الْغِنَاءُ، ‌وَاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ “ اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں اس سے مراد گانا ہے۔ امام حسن بصری فرماتے ہیں کہ یہ آیت گانے اور اس کے سازوں کی مذمت میں نازل ہوئی ہے۔ (ابن کثیر) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ یہ آیت نضر بن حارث کے بارے میں نازل ہوئی جو عجمیوں (ایرانیوں) کے قصے کہانیاں خرید کر لایا تھا (شوکانی) واحدی نے كلبی اور مجاہد سے بھی اس آیت کی شان نزول یہی نقل کی ہے حضرت ابن عباس سے ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ نضربن حارث نے گانے بجانے والی دو لونڈیاں بھی خرید کر رکھی تھیں جس کو دیکھتا کہ وہ اسلام کی طرف مائل ہو رہا ہے اس پر اپنی کوئی لونڈی مسلط کردیتا۔ وہ اسے اپنے گانے بجانے سے خوب مست رکھتی اور پھر وہ اس شخص سے کہتا کہ جس نماز روزہ کی طرف محمد (ﷺ) دعوت دیتے ہیں وہ بہتر ہے یا یہ گانا بجانا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ علما نے لکھا ہے، ہوسکتا ہے کہ ان سب کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی هو قال الالوسی والاحسن تفسیرہ بمایعم ذالک ۔اور حضرت ابن عباس کی روایت سے اس کی تائید ہوتی ہے جو کہ الادب المفرد بخاری اور سنن بہیقی میں ہے۔ وہ فرماتے ہیں ” هُوَ الْغِنَاءُ ‌وَأَشْبَاهُهُ یعنی ” لھو الحدیث سے موسیقی اور اس قسم کی دوسری چیزیں مراد ہیں اور یہاں’’ اشترا ‘‘خریدنے سے مراد قرآن کی بجائے اس سے لذت و سرور حاصل کرنا ہے۔ الغرض متعدد آثار و اقوال سلف میں گانے کی مذمت مذکور ہے۔ ایک حدیث میں آنحضرتﷺ نے گانے، گانے والے اور اس کے سننے والے پر لعنت فرمائی ہے اور آپﷺ نے فرمایا ہے گانا انسان کے دل میں اس طرح نفاق پیدا کرتا ہے جیسے پانی سے گھاس پات اگتا ہے۔ ” تاتار خانیہ“ میں مذکور ہے کہ ’’گانا تمام مذاہب میں حرام ہے۔“ امام مالک سے ’’سماع‘‘ کے متعلق سوال ہوا تو انہوں نے فرمایا : یہ تو ہمارے دور کے فاسق وفاجر لوگوں کا کام ہے اور ابن الصلاح نے تو ’’سماع‘‘ کی حرمت پر اجماع نقل کیا ہے خصوصاً وہ سماع جو فی زماننا صوفیہ کرام نے ایجاد کر رکھا ہے اور اسے اذکار و عبادات میں داخل کرلیا ہے۔ اس کے حرام ہونے میں کچھ بھی شک و شبہ نہیں ہے۔ سلف ہمیشہ ان باتوں سے دور رہے ہیں۔ (تفصیل کے لئے دیکھیے روحی المعانی) موجوده دور میں جس چیز کو ہم نے ’’ فنون لطیفہ‘‘ کے نام سے اسلامی تمدن کا جز قرار دے رکھا ہے اسی کے متعلق قرآن نے ’’ضلالت عن سبیل اللہ‘‘ ہونے کا اعلان کیا تھا فوا اسفا علی مافرطنا 12۔