وَمَا كُنتَ تَتْلُو مِن قَبْلِهِ مِن كِتَابٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ ۖ إِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ
اور اس سے پہلے (ف 2) تو نہ کوئی کتاب پڑھتا تھا اور نہ اپنے داہنے ہاتھ سے اسے لکھتا تھا اگر ایسا کرتا ہوتا تو اس وقت البتہ یہ جھوٹے شبہ کرسکتے تھے
8۔ کہ پچھلی کتابوں کو دیکھ کر آپ نے پیغمبر کا دعویٰ کردیا ہے۔ اس آیت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے امی ہونے کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دعوائے نبوت میں سچا ہونے پر دلیل ٹھہرایا ہے۔ (دیکھئے سورۃ قصص آیت 86 و سورۃ یونس آیت 16) بعض لوگوں نے صحیح بخاری میں صلح حدیبیہ والی روایت میں ” اخذ لکتب“ کہ قلم پکڑا اور لکھا سے استدلال کیا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لکھنا پڑھنا جانتے تھے مگر یہ استدلال بچند وجوہ مخدوش ہے۔ اولاً تو صحیح بخاری کی دوسری روایت میں ” امر لکتب“ کے الفاظ ہیں جو وضاحت کے لئے کافی ہیں یعنی کہ ” اپ نے حکم دیا تو کاتب نے لکھا“ اور پھر اسی روایت میں :” ولایحن ان لکتب“ کے الفاظ ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اس موقع پر لکھنا بھی اعجازی حیثیت کا حال ہے جو بجائے خود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سچا نبی ہونے کی دلیل ہے۔ (قرطبی۔ ابن کثیر)