إِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَحْيِي أَن يَضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا ۚ فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ ۖ وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَيَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَٰذَا مَثَلًا ۘ يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا ۚ وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِينَ
بیشک خدا مچھر کی یا اس سے اوپر شئے کی مثال بیان کرنے سے نہیں شرماتا ۔ پھر وہ جو ایمان دار ہیں جانتے ہیں کہ وہ انکے رب کی طرف سے ٹھیک ہے ۔ لیکن جو کافر ہیں سو کہتے ہیں کہ اللہ کو ایسی مثال کی کیا غرض تھی ؟ بہتیروں کو اس سے گمراہ کرتا اور بہتیروں کو اس سے ہدایت کرتا ہے اور صرف فاسق (بدکار نافرمان) لوگوں کو ہی اس سے گمراہ کرتا ہے۔ (ف ١)
ف 1: قرآن پاک میں متعدد مقامات پر مدعا کو واضح کرنے کے کے لیے مکڑی اور مکھی وغیرہ کی مثالیں بیان کی گئی ہیں اور ابتدا میں منافقین کی حالت سمجھانے کے لیے ان کے متعلق مثالیں بیان کی ہیں۔ کفار اور منافقین اعتراض کرتے تھے کہ اگر یہ قرآن کتاب الہی ہوتی تو اس قسم کے حقیر جانور وغیرہ کی مثالیں بیان نہ ہوتیں ان آیات میں انہی کے اعتراض کا جواب دیا ہے ’’عَهْدَ اللَّهِ‘‘ سے مراد وہ وصیت بھی ہو سکتی ہے جو انبیاء کی زبانی آسمانی کتابوں میں اپنے اوا مر ونواہی بجا لانے کے لیے کی ہے اور ہوسکتا ہے کہ تورات میں آنحضرت (ﷺ) پر ایمان لا نے کا جو عہد اہل کتاب سے لیا گیا ہے وہ مراد ہو۔