سورة آل عمران - آیت 38

هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِيَّا رَبَّهُ ۖ قَالَ رَبِّ هَبْ لِي مِن لَّدُنكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً ۖ إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاءِ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

تو اسی جگہ زکریا (علیہ السلام) نے اپنے رب سے دعا کی ، کہا ، اے میرے رب ! اپنے پاس سے مجھے پاکیزہ اولاد بخش ، بےشک تو سننے والا ہے ۔ (ف ١)

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 6 حضرت زکریا ( علیہ السلام) بوڑھے ہوچکے تھے اور ابھی تک بے اولاد تھے۔ بظاہر انہیں اولاد کی کوئی امید نہ تھی لیکن یہ دیکھ کر کہ کس طرح حضرت مریم ( علیہ السلام) کو خرق عادت کے طور بے موسم کا رزق پہنچ رہا ہے ان کے دل میں بھی یہ خواہش پیدا ہوئی کہ بے موسم کا رزق پہنچا نے ولا مایوسی کے عالم میں اولاد بھی عطا فرما سکتا ہے۔ چنانچہ اسی جگہ اور اسی وقت اللہ تعالیٰ کے حضور نیک اولاد کی دعا کی بعض علما نے حضرت مریم (علیھا السلام) کو خرق عادت میوے پہنچنے کا انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ محاورہ ہے کہ خدا رسیدہ لوگ ہر نعمت کو (من عند اللہ) اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کردیتے ہیں مگر حضرت زکریا ( علیہ السلام) کا اس حالت کو دیکھ کر اظہار تعجب اور دعا کرنا بتا رہا ہے کہ یہ رزق خرق عادت ہی مل رہا تھا۔ (م۔، ع )