وَدَخَلَ الْمَدِينَةَ عَلَىٰ حِينِ غَفْلَةٍ مِّنْ أَهْلِهَا فَوَجَدَ فِيهَا رَجُلَيْنِ يَقْتَتِلَانِ هَٰذَا مِن شِيعَتِهِ وَهَٰذَا مِنْ عَدُوِّهِ ۖ فَاسْتَغَاثَهُ الَّذِي مِن شِيعَتِهِ عَلَى الَّذِي مِنْ عَدُوِّهِ فَوَكَزَهُ مُوسَىٰ فَقَضَىٰ عَلَيْهِ ۖ قَالَ هَٰذَا مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ ۖ إِنَّهُ عَدُوٌّ مُّضِلٌّ مُّبِينٌ
اور وہ شہر میں آیا ۔ جب وہاں کے لوگ بےخبر تھے تو وہاں اس نے دو آدمی لڑتے پائے یہ اس کے رفیقوں میں سے تھا ۔ اور یہ اس کے دشمنوں میں سے تھا ۔ تو اس نے جو اس کی قوم کا تھا اس کے مقابلہ میں جو اس کے دشمنوں تھا ۔ موسیٰ سے مدد مانگی ۔ تب موسیٰ نے اس کے مکامارا ۔ پھر اس کو تمام کردیا ۔ تو کہا کہ یہ شیطانی کام ہوا ۔ بےشک وہ کھلم کھلا بہکانے والا دشمن ہے۔ (ف 1)
ف11۔ یعنی شہر میں سناٹا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ صبح کا وقت ہو یا گرمیوں کی دوپہر یا سردیوں کی رات کا۔ عموماً مفسرین (رح) نے دوپہر کا وقت لکھا ہے۔ بعض نے لکھا ہے کہ لوگوں سے چھپ کر اور ان کی لاعلمی میں۔“ کیونکہ اس وقت حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے فرعون کی مخالفت شروع کر رکھی تھی اور فرعون کو بھی پتا چل گیا تھا اس لئے شہر میں چھپ کر آئے۔ (قرطبی) ف1۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کا ارادہ قتل کا نہ تھا نہ قتل کے لئے گھونسا مارا جاتا ہے اور نہ کوئی شخص محض گھونسے سے مرتا ہے۔ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے اسے صرف تادیب اور گوشمالی کے لئے گھونسا مارا تھا مگر وہ اتنا کمزور اور بزدل نکلا کہ محض ایک گھونسے سے دم توڑ گیا۔ اس پر حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نادم ہوئے اور اپنی حرکت کو شیطانی حرکت قرار دیا۔