سورة آل عمران - آیت 28

لَّا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَن تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً ۗ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ ۗ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

چاہئے کہ مسلمان مسلمانوں کے سوا کافروں کو دوست (ف ١) نہ بنائیں اور جو (مسلمان) ایسا کرے گا تو اسے خدا سے کوئی تعلق نہیں البتہ اگر تم ان سے بچاؤ کرکے بچنا چاہو (تو مضائقہ نہیں) اور اللہ تم کو اپنی ذات سے ڈراتا ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے ۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 1 اس آیت میں کفار کے ساتھ موالات اور دوستی رکھنے سے منع فرمایا ہے اس پر سخت وعید سنائی ہے۔ صرف بچاو اور تدبیر سلطنت کی حد تک ظاہری طور پر موالاۃ کی اجا زت دی ہے بشر طیکہ یہ اظہار دل میں نفرت کے ساتھ ہو۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں تقیہ صرف زبان سے اظہار کی حد تک جائز ہے نہ کہ عمل سے۔ نیز حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ بعض یہودی رؤسا نے انصار کے ایک گروہ سے تعلقات قائم کر رکھے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ کسی موقع پر ہم ان کو دین اسلام سے پھیر نے میں کا میاب ہوجائیں گے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن کثیر۔ شوکانی) دراصل یہ اور اس مفہوم کی دوسری آیات اسلامی حکومت کی خارجہ پالیسی وضع کرنے میں اصل کی حثیت رکھتے ہیں۔ مزید تشریح کے لیے دیکھئے ما ئدہ آیت 51۔56 اور مسئلہ تقیہ کی تفصیل کے لیے سورت نحل آیت 106 ملا حظہ فرمائیں۔