سورة النمل - آیت 40

قَالَ الَّذِي عِندَهُ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتَابِ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ ۚ فَلَمَّا رَآهُ مُسْتَقِرًّا عِندَهُ قَالَ هَٰذَا مِن فَضْلِ رَبِّي لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ ۖ وَمَن شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

وہ شخص جس کو کتاب کا علم تھا ۔ بولاکہ میں تریے پاس پلک مارنے سے پہلے لاؤں گا ۔ پھر جب سلیمان (ف 1) نے وہ تخت اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا اور کہا کہ یہ میرے رب کے فضل سے ہے تاکہ وہ آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری اور جو کوئی شکر کرتا ہے وہ اپنی ہی جان کے لئے شکر کرتا ہے اور جو کوئی ناشکری کرتا ہے تو میرا رب بےپرواہ سخی ہے

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

10۔ یعنی اس سے پیشتر کہ آپ آسمان کی طرف نگاہ اٹھائیں اور پھر پلٹ کر نیچی کر لیں… یہ شخص کون تھا اور اس کے پاس اللہ کی، کس کتاب کا علم تھا؟ اس کی تصریح قرآن یا کسی صحیح حدیث میں نہیں ہے (لہٰذا ہم صرف اتنی بات ماننے کے مکلف ہیں جتنی قرآن میں بیان کی گئی ہے۔ یعنی وہ ایک شخص تھا جس کے پاس (اللہ کی) کتاب کا علم تھا۔ یوں اکثر مفسرین (رح) کا قول یہ ہے کہ وہ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کا ایک وزیر آصف بن برخیا تھا جو بنی اسرائیل میں سے تھا اور اسے اللہ تعالیٰ کے اس اسم اعظمکا علم تھا جس کے ذریعے اگر اس سے دعا کی جائے تو وہ اسے ضرور قبول فرماتا ہے۔ اس صورت میں یہ آصف کی کرامت ہوگی اور حضرت سلیمان کا معجزہ تصور پائے گا۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ حضرت خضر ( علیہ السلام) تھے اور بعض کہتے ہیں کہ وہ خود حضرت سلیمان ( علیہ السلام) تھے۔ لیکن ان میں سے پہلا قول زیادہ معتبر معلوم ہوتا ہے واللہ اعلم۔ (شوکانی) 11۔ یعنی حضرت سلیمان ( علیہ السلام) نے اس شخص کو حکم دیا۔ حکم ملتے ہی اس نے تخت ان کے سامنے لا کر رکھ دیا۔ اس پر حضرت سلیمان ( علیہ السلام) نے فرمایا۔12۔ یعنی اسے نہ کسی کے شکر کی پروا ہے نہ محتاجی اور کرم والا ایسا ہے کہ ناشکروں کو بھی ہزاروں قسم کی نعمتیں دیتا ہے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فراتا ہے :” اے میرے بندو ! اگر اول سے آخر تک تم سب انسان اور جن اپنے میں سے سب سے زیادہ متقی شخص کا سا دل بنا لو تو اسے میری بادشاہی میں کچھ اضافہ نہیں ہوجائے گا اور اگر تم سب بدکار ترین شخص کے سے دل والے بن جائو تو اس سے میری بادشاہی میں کوئی کمی نہیں آجائے گی۔ سب انسانوں کو ان کے اعمال ہی کا بدلہ مل رہا ہے۔ پس جسے کوئی بھلائی نصیب ہو اسے چاہئے کہ اللہ کا شکر ادا کرے اور جسے کچھ اور نصیب ہو۔ وہ بس اپنے آپ ہی کو ملامت کرے۔ (ابن کثیر)