إِلَّا مَن ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسْنًا بَعْدَ سُوءٍ فَإِنِّي غَفُورٌ رَّحِيمٌ
مگر جس نے ظیم کیا پھر اس کے عوض میں بدی کے نیکی کی تو میں بخشنے والا مہربان ہوں
4۔ یہ استثنا منقطع ہے اور لفظ ” الا“ بمعنی لئکن یعنی برائے استدراک ہے اور اگر مستثنیٰ متصل مذکور سے مانا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ ” ہاں ! اس پیغمبر کو ڈر ہوسکتا ہے جس سے کوئی گناہ سرزد ہوگیا ہو۔ مگر ہمارا قاعدہ ہے کہ جب کوئی توبہ کر کے اپنے رویہ کی اصلاح کرلیتا ہے تو ہم اسے معاف کردیتے ہیں اس کے بعد ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ (شوکانی) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” مسیٰ (علیہ السلام) سے چوک کر ایک کافر کا خون ہوگیا تھا اس کا ڈر تھا ان کے دل میں، ان کو وہ معاف کردیا۔ (موضح) انبیا اپنے علو مرتبت کے پیش نظر معمولی سی لغزش یا خطا کو بھی ظلم خیال کرتے تھے۔ ان کو ایسی غلطی معاف کردی جاتی ہے مگر پھر بھی وہ ڈرتے رہتے ہیں۔ (قرطبی)