فَكَذَّبُوهُ فَأَخَذَهُمْ عَذَابُ يَوْمِ الظُّلَّةِ ۚ إِنَّهُ كَانَ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ
پھر انہوں نے اسے جھٹلایا تب سائبان کے ان کے عذاب نے انہیں آپکڑا بےشک وہ بڑے دن کا عذاب تھا
2۔ قرآن کی کسی آیت یا حدیث سے اس عذاب کی تفصیل معلوم نہیں ہوئی۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں : سات دن تک سخت لو چلتی رہی جس سے ان کے بدن پک گئے اور کنوئوں اور چشموں کا پانی سوکھ گیا۔ وہ گھبرا کر جنگل کی طرف نکلے، وہاں دھوپ کی شدت اور نیچے سے گرم زمین نے ان کے پائوں کی کھال ادھیڑدی۔ پھر ایک سیاہ بادل سائبان کی شکل میں نمودار ہوا وہ سارے کے سارے خوشی کے مارے اس کے سائے میں جمع ہوگئے اس وقت ناگہاں بادل سے آگ برسنا شروع ہوئی جس سے سب ہلاک ہوگئے۔ ایک روایت میں حضرت ابن عباس (رض) یہ بھی فرماتے ہیں کہ ” یوم الظلہ“ کے عذاب کے بارے میں جو کوئی اور تفسیر بیان کرے اسے جھوٹا سمجھو۔ ممکن ہے حضرت ابن عباس (رض) نے یہ تفسیر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی ہ اور ان کے علاوہ اور کسی کو معلوم نہ ہو۔ واللہ اعلم۔ (شوکانی بتصرف) امام رازی اس تفصیل کو بصیغہ تمریض بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں : ” اور یہ بھی مروی ہے کہ ” اصحاب مدین“ اور ” اصحاب ایکہ“ دو قومیں تھیں اور حضرت شعیب ( علیہ السلام) دونوں کی طرف مبعوث تھے، دونوں ایک ہی نوع کے جرائم میں مبتلا تھیں اس لئے دونوں کو تبلیغ بھی ایک ہی طرح کی ہے۔ ان میں سے پہلی قوم تو ” صیحۃ“ سے ہلاک ہوئی۔ (دیکھئے سورۃ ہود آیت 94) اور دوسری قوم پر ” یوم الظلہ“ کا عذاب آیا۔ واللہ اعلم۔ (کبیر)