سورة البقرة - آیت 22

الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَّكُمْ ۖ فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَندَادًا وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

اس نے زمین کو تمہارے لئے بچھونا بنایا اور آسمان کو عمارت (چھت) بنایا پھر آسمان سے پانی اتارا ، جس سے تمہارے کھانے کو میوے نکالے ، سو تم جان بوجھ کر اس کے شریک نہ ٹھہراؤ۔(ف ١)

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 1: ’’ السَّمَاءَ‘‘ سے مراد اس جگہ بادل ہے۔ (ابن کثیر ) ف2: ’’ أَنْدَادًا‘‘ کا واحد ’’نِد‘‘ ہے جس کے معنی ہمسر اور شریک کے ہیں یعنی جب تم جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق ہے اور نفع ونقصان بھی اس کے قبضہ قدرت میں ہے تو پھر دوسروکواس کا ہمسر کیوں سمجھتے ہو شرک کے بہت سے شعبے ہیں اور آنحضرت نے اس کا سد باب کرنے کے لیے ہر ایسے قول و فعل سے منع فرمایا ہے جس میں شرک کا شائبہ تک بھی پایا جاتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ ایک آدمی نے آنحضرت (ﷺ) سے کہا(مَا شَاءَ اللَّهُ وَشِئْتَ)اس پر آپ (ﷺ) نے فرمایا ؛(أَجَعَلْتَنِي ‌لِلَّهِ ‌نِدًّا) کہ تو نے مجھے اللہ کا شریک ٹھہرا دیا ( نسائی، ابن ماجہ) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے شرک بہت خفی ہے، ایک شخص کسی کی جان کی قسم کھاتا ہے یا یہ کہتا ہے کہ فلاں بطخ نہ ہوتی تو گھر میں چور آجاتے وغیرہ کلمات بھی ایک طرح سے’’ ند‘‘ کے تحت آجاتے ہیں۔ (ابن کثیر )