أَمْ تَحْسَبُ أَنَّ أَكْثَرَهُمْ يَسْمَعُونَ أَوْ يَعْقِلُونَ ۚ إِنْ هُمْ إِلَّا كَالْأَنْعَامِ ۖ بَلْ هُمْ أَضَلُّ سَبِيلًا
کیا تو سمجھتا ہے کہ انہیں بہت لوگ سنتے یا سمجھتے ہیں ۔ وہ تو چارپایوں کی مانند ہیں ۔ بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ۔( ف 1)
ف4۔ یعنی ان کے لیڈر اور بڑے لوگ بھیڑ بکریوں کی طرح انہیں ہانک کر جدھر لے جانا چاہتے ہیں لے جاتے ہیں۔ ف5۔ کیونکہ جانور تو اس لحاظ سے معذور ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں سوچنے سمجھنے کا مادہ ہی نہیں رکھا مگر تف ہے ان بدبختوں پر کہ عقل و شعور رکھتے ہیں مگر اس سے کوئی کام نہیں لیتے یا لیتے ہیں تو الٹا لیتے ہیں۔ یا یہ مطلب ہے کہ بہائم (چوپائے جانور) تو پھر بھی اپنے مالک کے تابع رہتے ہیں۔ چراگاہ میں چلے جاتے ہیں۔ پھر واپس اپنے ٹھکانے پر پہنچ جاتے ہیں مگر یہ نہ اپنے خالق و رازق کو پہچانتے ہیں اور نہ اس کی مرضی کے مطابق زندگی ہی گزار رہے ہیں۔ (قرطبی۔ شوکانی)