لِّلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ وَإِن تُبْدُوا مَا فِي أَنفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُم بِهِ اللَّهُ ۖ فَيَغْفِرُ لِمَن يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اللہ کا ہے اور اگر تم اپنے دل کی بات کھولو یا چھپاؤ ، اس کا حساب اللہ تم سے لے گا ، پھر جسے چاہے گا ، بخشے گا اور جسے چاہے گا ، عذاب کرے گا اور خدا ہر شے پر قادر ہے (ف ١) ۔
ف 4 اس سے معلوم ہوا کہ خیالات پر بھی محاسبہ ہوگا مگر ان سے مراد وہ خیالات ہیں جن پر انسان کو اختیا رہو اور جنہیں وہ دل میں جاگزیں کرلے اور جو خیالات انسان کی طاقت اور اختیار سے باہر ہوں اور ان کو اپنے دل میں جگہ نہ دے تو ان پر محاسبہ نہ ہوگا جیسا کہ اگلی آیت : لا یکلف اللہ۔ الخ میں ہے حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ جب آیت للہ مافی السموات۔۔۔ نازل ہوئی تو صحانہ پر گراں گزری اور انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا ہم نماز، روزہ وغیرہ اعمال بجا لا رہے ہیں اس آیت کے مطابق تو بڑی مشکل پڑے گی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تم بھی پہلے اہل کتاب کی طرح سمعنا وعصینا کہنا چاہتے ہو بلکہ تم یوں کہو سمعنا واطعنا غفر انک ربنا والیک المصیر۔ جب صحا بہ نے اس کا اقرار کرلیا تو اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت : امن الرسول۔۔ نازل فرمائی اور آیت : اوتخفوہ یحاسبکم بہ اللہ۔ کو منسوخ کردیا اور جب اگلی آیت لا یکلف اللہ۔۔۔۔ الخ نازل فرمائی تو اس کے ہر دعا ئیہ جملہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے قد فعلت (میں نے ایسا کردیا) فرمایا۔ (احمد۔ مسلم) واضح رہے کہ یہاں دوسری آیت سے پہلی کے منسوخ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ پہلی آیت میں جو ابہام تھا اس کی وضاحت فرما دی، حافظ اب القیم لکھتے ہیں کہ صحا بہ کرام نسخ کا لفظ وضاحت کے معنی میں بھی استعمال کرتے تھے۔ حضرت ابو ہریرہ (رض) سے ایک دوسری روایت میں ہے کہ انحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میرے لیے اللہ تعالیٰ نے میری امت کے لوگوں کو وہ خیالات اور وساویس معاف کردیئے ہیں جو ان کے دلوں میں آئیں تاوقتیکہ انکو زبان پر نہ لائیں یاان پر عمل نہ کریں۔ (ابن کثیر۔ شوکانی )