سورة البقرة - آیت 283

وَإِن كُنتُمْ عَلَىٰ سَفَرٍ وَلَمْ تَجِدُوا كَاتِبًا فَرِهَانٌ مَّقْبُوضَةٌ ۖ فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُم بَعْضًا فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمَانَتَهُ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ ۗ وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۚ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

اور اگر تم سفر میں ہو اور لکھنے والا نہ پاؤ تو رہن ہاتھ میں رکھ لو (ف ٢) ، پھر اگر ایک دوسرے کا اعتبار کرے تو چاہئے کہ وہ شخص جس پر اعتبار کیا گیا ہے اس کی امانت اس کو ادا کرے اور اللہ سے ڈرے ۔ جو اس کا رب ہے ، اور تم گواہی کو نہ چھپاؤ اور جس نے گواہی کو چھپایا ، اس کا دل گنہگار ہے ، اور خدا تمہارے کام خوب جانتا ہے ۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 1 یہ بیع کی ایک دوسری شکل ہے۔ یعنی اگر تم سفر میں قرض کا معاملہ کرو اور تمہیں لکھنے ولا یا ادوات تحریر میسر نہ ہوں تو تحریر کی بجائے مدیون کو چاہیے کہ صاحب دین کے پاس کوئی چیز رہن رکھ دے۔ سفر کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ یہ چیز زیادہ ترسفر میں پیش آسکتی ہے ورنہ رہن حضرت میں بھی جائز ہے۔ خود آنحضرت (ﷺ) نے اپنی زرہ ایک یہو دی کے پاس گروی رکھ کر عملا اس کی وضاحت کردی،( صحیحین) پس سفر میں تورہن کی نص قرآن سے ثابت ہے اور حضر میں آنحضرت کے فعل سے۔ (شوکانی) ف 2یعنی قرضدار لینے والے کا اعتبار کرے اور اس کی کوئی چیز رہن رکھے بغیر اسے قرض دے دے تو سے بھی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اس کا قرض ادا کردے۔ حدیث میں ہے : (عَلَى الیدِ ما اخَذَتْ حَتّى‏ تُؤَدّى)۔ کہ ہاتھ نے جو کچھ لیا ہے اس کے ذمہ ہے جب تک کہ ادا نہ کردے۔ (ابن کثیر) ف 3 اس میں اثم (گناہ) کی نسبت دل کی طرف کی ہے اس لیے کہ کتمان دل کا فعل ہے اور اسکے دواعی اولادل ہی میں پیدا ہوتے ہیں۔ یہ وعید ہے کہ کتمان شہادت اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس سے دل مسخ ہوجاتا ہے۔ نعوذباللہ من ذلک (شوکانی) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جھوٹی گواہی دینا اور اسی طرح گواہی کو چھپا نا کبیرہ گناہ ہے۔ (ابن کثیر) سعید بن مسیب اور ابن شہاب کا قول ہے کہ آیت رباور آیت دین سب سے آخر میں نازل ہوئی ہیں۔ (شوکانی )