يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
اے لوگو اپنے رب کی جس نے تمہیں اور تم سے اگلوں کو پیدا کیا ‘ بندگی کرو ، تاکہ تم پرہیزگار ہوجاؤ (بچ جاؤ )
ف 7 یہاں تک تو تمہید تھی کہ قرآن جو ہدایت کا اصلی سر چشمہ ہے اسے ماننے اور نہ ماننے کے اعتبار سے تین قسم کے لوگ ہیں اب آگے بنی نوع انسان کے سامنے وہ اصل بات پیش کی جا رہی ہے جو قرآنی دعوت کا حقیق نصب الیعن ہے اور جس کے لیے کتابوں کی تنزیل اور انبیاء کی بعثت کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے وہ ہے دعوت الہی التو حید یعنی اللہ تعالیٰ کو ایک ماننا اور اس کی عبادت اور دعا میں کسی کو شریک نہ سمجھنا۔ ف 8 حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اعبدوا کے معنی ہیں وحدوا یعنی اللہ تعالیٰ کو ایک مانو اور شرک سے بچو۔ (ابن کثیر) جب آیت سے مقصد یہی ہے تو خلق کا ذکر تو محض اقامت حجت کے طور پر ہے یعنی جس اللہ کو خالق کائنات مانتے ہو اور اس کا امور تکوینی پر تصرف اور اختیار تسلیم کرتے ہو عبادت بھی اسی کی کرو اور حاجت کے لی دعا بھی اسی ایک سے مانگو۔ ابن کثیر۔ فتح القدیر ) ف 9 اس کا تعلق اعبدوا سے ہے یعنی توحید کا عقیدہ اختیار کر لوگے تو یقینا تمہارے اندر تقوی پیدا ہوجائے گا۔ قرآن میں لعل کا اعتبار عموما یقین کے معنوں میں ہوا ہے۔ ( المنار)