سورة الفرقان - آیت 21

وَقَالَ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْنَا الْمَلَائِكَةُ أَوْ نَرَىٰ رَبَّنَا ۗ لَقَدِ اسْتَكْبَرُوا فِي أَنفُسِهِمْ وَعَتَوْا عُتُوًّا كَبِيرًا

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

اور جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے انہوں نے کہا کہ ہم پر فرشتے کیوں نہیں اتارے گئے (ف 1) یا ہم اپنے رب کو دیکھتے ۔ انہوں نے اپنے میں تکبر کیا اور بڑی سرکشی کی۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف1۔ جیسا کہ دوسری آیت میں ہے :İ أَوْ تَأْتِيَ بِاللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ قَبِيلًاĬا تم اللہ اور فرشتوں کو ہمارے سامنے نہ لے آئو۔ (اسرا :92) دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جس طرح پیغمبروں پر فرشتے نازل ہوتے ہیں۔ ہمارے پاس بھی فرشتے کیوں نہیں آتے؟ جیسا کہ دوسری آیت میں ہے :İ قَالُوا لَنْ نُؤْمِنَ حَتَّى نُؤْتَى مِثْلَ مَا أُوتِيَ رُسُلُ اللَّهِĬیعنی وہ کہتے ہیں کہ ہم تو ایمان نہیں لائیں گے جب تک ہمیں بھی ویسی ہی چیز (یعنی رسالت) نہ دی جائے جو اللہ کے رسولوں کو دی گئی۔ دیکھئے سورۃ انعام آیت 124۔ (ابن کثیر) ف2۔ یعنی یہ اپنی دانست میں اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھنے لگے۔ اس لئے ان میں اتباع حق سے بے نیازی کا جذبہ پیدا ہوگیا۔ یا یہ کہ ” استکبار“ یعنی کفر و عناد اپنے دلوں میں چھپا رکھا ہے۔ ف3۔ ” سرکشی میں حد سے گزر گئے۔“ یعنی پیغمبر کی تکذیب کی اور ایسی باتوں کا مطالبہ کیا جو اولوالعزم پیغمبروں میں کسی کو ہی حاصل ہو سکتی ہیں پھر اس سے بڑھ کر اور کیا سرکشی ہوگی۔