سورة النور - آیت 33

وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ نِكَاحًا حَتَّىٰ يُغْنِيَهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ ۗ وَالَّذِينَ يَبْتَغُونَ الْكِتَابَ مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوهُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِيهِمْ خَيْرًا ۖ وَآتُوهُم مِّن مَّالِ اللَّهِ الَّذِي آتَاكُمْ ۚ وَلَا تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِ إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوا عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۚ وَمَن يُكْرِههُّنَّ فَإِنَّ اللَّهَ مِن بَعْدِ إِكْرَاهِهِنَّ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور چاہیے کہ وہ لوگ جو نکاح کا مقدور نہیں رکھتے پرہیز گار ہیں (ف ٢) ۔ یہاں تک کہ اللہ اپنے فضل سے انہیں تونگر کرے ، اور جو لوگ تمہارے ہاتھ کے مال (باندی غلاموں) میں سے کچھ دے کر اپنی (آزادی کی) تحریر چاہتے ہیں ان کو تحریر لکھ دو ، اگر تم ان میں کچھ نیکی معلوم کرو اور اللہ کے مال میں سے جو اس نے تمہیں دیا ہے ‘ انہیں دو اور اپنی باندیوں پر اگر وہ پرہیز گاری چاہیں ‘ زنا کرانے کے لئے جبر نہ کرو تاکہ اس طریق سے حیات دنیا کا اسباب کمایا چاہو ، اور جو کوئی ان پر جبر کرے گا ، تو ان کی بےبسی پیچھے (ان کو) اللہ بخشنے والا مہربان ہے (ف ١) ۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

6۔ مکاتب اس غلام یا لونڈی کو کہتے ہیں جس کا مالک اس سے کہتا ہے، اگر تم اتنا مال اتنی قسطوں میں ادا کر دو گے تو میں تمہیں آزاد کر دونگا۔7۔ یعنی اپنی زکوٰۃ و صدقات سے ان کی مدد کرو تاکہ وہ آزادی حاصل کرسکیں۔8۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر لونڈیاں خود پاکدامن نہ رہنا چاہیں تو ان سے حرام کاری کرائی جاسکتی ہے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ اگر وہ اپنی مرضی سے حرامکاری کریں گی تو اس کی ذمہ داری ان پر ہوگی اور وہ خود مجرم ہوں گی، لیکن اگر مالک ان سے زبردستی حرامکاری کرائے گا تو اللہ کے ہاں بھی اور قانون کی نظر میں بھی مجرم ان کا مالک ہوگا۔ خود ان پر کوئی گناہ نہ ہوگا۔ صحیح مسلم میں حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ راس المنافقین عبد اللہ بن ابی کی سیکہ اور امیہ نامی دو لونڈیاں تھیں جن سے وہ زبردستی حرامکاری کراتا تھا۔ انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں شکایت کی، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (فتح القدیر)