سورة النور - آیت 26

الْخَبِيثَاتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثَاتِ ۖ وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ ۚ أُولَٰئِكَ مُبَرَّءُونَ مِمَّا يَقُولُونَ ۖ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

گندی عورتیں گندے مردوں کیلئے ہیں اور گندے مرد گندی عورتوں کیلئے ہیں اور ستھری عورتیں ستھرے مردوں کیلئے ہیں ، اور ستھرے مر نہ ستھری عورتوں کیلئے ہیں یہ لوگ ان باتوں سے بری ہیں جو وہ کہتے ہیں ان کے لئے مغفرت اور عزت کی روزی ہے (ف ١) ۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

7۔ اس آیت میں یہ نفسیاتی حقیقت بیان کی گئی ہے کہ خبیثوں (گندوں) کا نبھائو گندی عورتوں سے اور پاکیزہ لوگوں کا نبھائو پاکیزہ حاصل عورتوں سے ہی ہوسکتا ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک مردخود تو بڑا پاکیزہ ہے مگر وہ ایک خبیث عورت سے برسوں نبھائو کرتا چلا جائے۔ مقصود حضرت عائشہ (رض) کی نزاہت ہے کہ اگر ان میں خباثت کا ادنیٰ سا شائبہ بھی ہوتا تو یہ کیسے ممکن تھا کہ نبیﷺ جو ازل سے ابد تک پاکوں کے سردار تھے ان سے نہایت محبت و اطمیان سے برسوں نبھائو کرتے چلے جاتے؟ حضرت ابن عباس (رض) اور بعض دوسرے مفسرین (رح) نے خبیثات سے گندے اقوال و افعال اور طیبات سے پاکیزہ اقوال و افعال بھی مراد لئے ہیں یعنی جیسا کوئی آدمی خود ہوتا ہے ویسے ہی وہ اعمال کرتا ہے اور ویسے ہی اقوال زبان پر لاتا ہے۔ اب چونکہ حضرت عائشہ (رض) پاک تھیں ان کی سیرت بھی پاک تھی اور یہ منافق خود بھی گندے تھے اس لئے ان سے ایسے ہی گندے اقوال و افعال کی توقع تھی۔ (ابن کثیر) 1۔ یہاں تک وہ آیات مکمل ہوگئیں جو حضرت عائشہ (رض) کی تہمت زنا سے برأت کے سلسلہ میں نازل کی گئی تھیں۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں۔ جب یہ آیات نازل ہوئیں اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے خوشخبری دی تو میری والدہ نے مجھ سے کہا : اٹھو، اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا شکریہ ادا کرو“ میں نے کہا :“ میں نہ ان کا شکریہ ادا کرونگی اور نہ اپنے ماں باپ کا، بلکہ میں تو اللہ ہی کا شکر ادا کرونگی جس نے میری برأت نازل فرمائی۔ حضرت عائشہ (رض) مزید فرماتی ہیں :” یہ بات میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھی کہ میرے حق میں وحی نازل ہوگی جو قیامت تک پڑھی جائیگی میں اپنی ہستی کو اس سے کمتر سمجھتی تھی کہ اللہ تعالیٰ خود میری برأت میں کلام کرے۔ (بخاری، مسلم)