يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ ۖ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِيهِ إِلَّا أَن تُغْمِضُوا فِيهِ ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ
مومنو ! اپنی کمائی کی اچھی چیزوں میں سے اور اس میں سے جو ہم نے تمہارے لئے زمین سے نکالا ہے خرچ کرو اور گندی شے پر نیت نہ رکھو کہ اس میں سے خرچ کرنے لگو ، حالانکہ تم خود اسے کبھی نہ لوگے ۔ مگر یہ کہ اس میں چشم پوشی کر جاؤ اور جان کو کہ اللہ بےپرواہ خوبیوں والا ہے ۔(ف ١)
ف 2 اوپر کی آیات میں بتایا ہے کہ صدقہ وخیرات اور انفاق فی سبیل اللہ کی قبولیت کے لیے شرط یہ ہے کہ اخلاص و ایمان ہو اور یہ بھی بتایا ہے کہ ریاکاری احسان جتلانے اور تکلیف دینے سے صدقہ ضائع ہوجاتا ہے اور پھر مثالوں سے وضاحت کر کے سمجھا یا ہے۔ (کبیر) اب اس آیت میں قبولیت صدقہ کے لیے ایک اور شرط بیان کی ہے کہ صدقہ میں دی جانے والی چیز کا عمدہ اور طیب ہونا ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص ردی چیز دے گا تو وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول نہ ہوگی حضرت برابن عازب (رض) فرماتے ہیں کہ یہ آیت ہم انصار کے بارے میں نازل ہوئی ہے جب کھجور کا موسم آجاتا تو کچھ لوگ کھجوروں کی ڈالیا ںلا کر مسجد نبوی کے ستونوں پر لٹکا جاتے۔ اصحاب صفہ میں سے کسی کو بھوک لگتی تو وہ اس میں حسب ضرورت کھجوریں تو ڑکر کھالیتا بعض لوگ نکمی اور سڑی ہوئی ڈالیاں لٹکا نے لگے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن کثیر) گو شان نزول میں نفلی صدقہ کا ذکر ہے مگر یہ حکم فرض زکوۃ اور نفلی صدقہ دونوں کو شامل ہے۔ حدیث میں ہے کہ آنحضرت (ﷺ) نے دو قسم کی ردی کھجوروں (الجعرور، ابن ابی الحبیق) کو صدقہ میں قبول کرنے سے منع فرمایا اور لفظ طیب جس طرح عمدہ مال کے معنی میں آتا ہے اسی طرح اس میں وہ مال بھی آجاتا ہے جو حلال طریقے سے کمایا ہوا ہو۔ پس معنی یہ ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں پاکیزہ اور حلال کے طریقے سے کما یا ہوا مال خرچ کرو۔ خبیث یعنی حرام مال سے صدقہ قبول نہیں ہوتا۔ حدیث میں ہے(لا يَكْسِبُ عَبْدٌ مالًا حَرَامًا، فَيَتَصَدَّقَ مِنْهُ فيُقْبَلَ مِنْهُ)۔ کہ جو شخص حرام مال میں سے خرچ کرتا ہے اس میں برکت نہیں ہوتی اور اگر اس سے صدقہ کرے تو اللہ کے ہاں قبول نہیں ہوتا۔ (ابن کثیر )