قَالَ عَمَّا قَلِيلٍ لَّيُصْبِحُنَّ نَادِمِينَ
فرمایا اب تھوڑے دنوں کے بعد پچھتائیں گے ۔
5۔ اگر ” قرنا اخرین“ سے مراد قوم صالح ( علیہ السلام) (ثمود) ہوجیسا کہ علامہ طبری وغیرہ کا خیال ہے تو اس میں کچھ اشکال نہیں ہے۔ کیونکہ ” ثمود“ صیحہ سے ہلاک ہوئے ہیں لیکن اگر اس ” قرن“ سے مراد قوم عاد ہوجیسا کہ اکثر مفسرین کا خیال ہے اور اوپر ذکر ہوا ہے تو یہ اشکال لازم آتا ہے کہ قوم ثمود تو باد صرصر سے ہلاک ہوئی ہے پھر یہاں اس ” صیحۃ“ سے کیا مراد ہے۔ اس کے جواب میں مفسرین (رح) نے لکھا ہے کہ باد صر صر کے عذاب کے ساتھ جبریل نے ایک چنگھاڑ ماری جس سے یکدم تمام کے تمام ختم ہوگئے۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نفس کے اس عذاب ہی کو ” صیحۃ“ سے تعبیر فرمایا ہو۔ (ابن کثیر۔ شوکانی) 6۔ یعنی جو سزا انہیں دی گئی وہ عین عدل و انصاف کے مطابق تھی، ان پر کوئی زیادتی نہیں کی گئی۔ بعض نے فاخذتھم الصیحۃ بالحق کا یہ ترجمہ کیا ہے : آخر ” سچے وعدے“ کے مطابق ایک چیخ نے انہیں آ دبوچا۔ یعنی وہ وعدہ جو ” عما قلیل لیصبحن ناد مین“ کے ضمن میں پایا جاتا ہے۔ اور ” الحق“ سے مراد قطعی امر بھی ہوسکتا ہے جسے کوئی روک نہ سکتا ہو۔ (روح)