وَمِنَ النَّاسِ مَن يُجَادِلُ فِي اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَلَا هُدًى وَلَا كِتَابٍ مُّنِيرٍ
اور آدمیوں میں کوئی ہے کہ اللہ کے بارہ میں بےعلم اور بےہدایت اور بےروشن کتاب کے جھگڑتا ہے (ف ١) ۔
ف 5۔ تاکہ ان کے اعمال کا حساب لیا جائے اور جیسا کسی کا عمل ہو ویسا ہی اسے بدلہ دیا جائے۔ امام رازی (رح) فرماتے ہیں۔ اوپر دوبارہ زندہ کئے جانے کے امکان پر دلائل قائم کئے۔ اب دوبارہ زندگی کے وقوع کی خبر دی اور یہ ظاہر ہے کہ کسی ممکن چیز کے وقوع کی ایک صادق مصدوق خبر دے تو اس کے وقوع میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں ہوسکتا۔ (کبیر) ف 6۔ یعنی اس کے پاس ضروری (بدیہی) علم سے کوئی دلیل ہے نہ نظر و استدلال سے اور نہ کوئی وحی ہی ہے جو خدا کی طرف سے کتاب کی شکل میں نازل کی گئی ہو بلکہ وہ محض اٹکل پچو اللہ تعالیٰ اور اس کی قدرت کے بارے میں جھگڑا کرتا ہے۔ پہلی آیت میں شیاطین کے مقدارین کا حال بیان فرمایا اور اس آیت میں ان کے پیشوائوں کا۔ (ابن کثیر، شوکانی)