يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خُلَّةٌ وَلَا شَفَاعَةٌ ۗ وَالْكَافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَ
مومنو ! جو کچھ ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرو اس دن کے آنے سے پہلے جس میں بیع اور دوستی اور شفاعت نہیں ہے اور وہ جو منکر ہیں وہی ظالم ہیں (ف ١)
ف 6 انسان پر سب سے زیادہ مشکل جان ومال کی قربانی ہے اور عموما شریعت کے احکام کا تعلق ان دونوں سے ہے۔ اس سورت میں پہلے قاتلو افی سبیل اللہ فرماکر جہاد کا حکم دیا اور آیت من ذالذی یقرض اللہ " سے جہاد کے لیے مال خرچ کرنے کی ترغیب دی اس کے بعد قصہ طالوت سے پہلے حکم کی تاکید کی اور اس آیت میں دوسرے ام کو مؤکد کرنے کے لیے دوبارہ صرف مال کا حکم دیا۔ (کبیر) مقصد یہ کہ انسان دنیاوی اسباب و وسائل کو چھوڑ کر اکیلا ہی اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوگا لہذا آخرت میں نجات کے لیے صدقہ وخیرات ایسے نیک اعمال کو وسیلہ بناؤ۔ قیامت کے دن دنیاوی مودت نسبی تعلق، شفاعت وغیرہ یہ چیزیں کام نہیں آئیں گی۔ (ابن کثیر) اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ زکوہ کا منکر کافر ہے چنانچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعدد حضڑت ابو بکر الصدیق (رض) نے منکرین زکوہ سے جہاد کیا جیسا کہ کفار سے کیا جاتا ہے۔ (قرطبی )