تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۘ مِّنْهُم مَّن كَلَّمَ اللَّهُ ۖ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ ۚ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ ۗ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِينَ مِن بَعْدِهِم مِّن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَلَٰكِنِ اخْتَلَفُوا فَمِنْهُم مَّنْ آمَنَ وَمِنْهُم مَّن كَفَرَ ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا اقْتَتَلُوا وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ
ان رسولوں میں ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت (ف ١) دی ہے ، کوئی ان میں سے ہے جس سے خدا نے کلام کیا اور کسی کے ان میں درجے بلند کئے اور عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کو ہم نے کھلے نشان دئیے اور روح القدس سے ان کی مدد کی اور اگر خدا چاہتا تو ان کے بعد کے لوگ صاف حکم پانے کے بعد ہرگز نہ آپس میں لڑتے لیکن انہوں باہم اختلاف ڈالا ، سو کوئی ان میں سے ایمان لایا اور کوئی کافر ہوا اور خدا چاہتا تو وہ نہ لڑتے لیکن اللہ جو چاہتا ہے سو کرتا ہے ۔ (ف ٢)
ف 1 تِلۡكَ ٱلرُّسُلُسے وہ رسول مراد ہیں جن کا اس سورت میں ذکر آیا ہے۔ یہ عقیدہ کہ انبیاء درجات میں مختلف ہیں اور ان میں جو تفاضل پایا جاتا ہے اور پھر یہ کہ آنحضرت (ﷺ) تمام انبیاء سے افضل ہیں اور بالکل صحیح اور امت کا اجماعی عقیدہ ہے۔امام رازی نے انہیں دلائل سے ثابت کیا ہے کہ آنحضرت (ﷺ) کو جملہ انبیاء پر فضیلت حاصل ہے اور اس سلسلہ میں شبہات کے جوابات دیئے ہیں۔ (کبیر) لیکن صحیحین میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے یہ بھی روایت کہ آنحضرت (ﷺ) نے فرمایا :( لَا تُفَضِّلُونِي عَلَى الْأَنْبِيَاءِ) (کہ مجھے انبیاء پر فضیلت نہ دو) جو بظاہر اس آیت کے معارض ہے علماء نے اس کے متعدد جوابات دیئے ہیں، واضح ترین جواب یہ ہے کہ میری فضیلت ایسے انداز سے بیان نہ کرو جس سے دوسرے انبیاء كی کسر شان کا پہلو نکلتا ہو۔ امام شوکانی لکھتے ہیں کہ اس آیت سے انبیاء کے مابین تفاضل ثابت ہوتا ہے لیکن حدیث میں مقابلہ کی صورت میں تفاضل سے منع فرمایا ہے یا فضیلت جزوی مراد ہے۔ پس کتاب و سنت میں کوئی تعارض نہیں والحمد للہ علی ذلک۔( ابن کثیر، فتح القدیر) ف 2 جیسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور محمد (ﷺ)۔ صحیح ابن حبان کی ایک حدیث میں حضرت آدم (علیہ السلام) کا بھی نبی مکلّم ہونا ثابت ہے۔ (ابن کثیر، کبیر) ف 3 چنانچہ آنحضرت (ﷺ) نے لیلتہ الاسرا میں بحسب مراتب آسمانوں پر انبیاء کو دیکھا۔ (ابن کثیر ) ف 4 یہاں’’ الْبَيِّنَاتِ ‘‘ سے مراد واضح دلائل اور معجزات ہیں جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو دیئے گئے۔ ( دیکھئے آل عمران آیت 49) اور’’ روح القدس‘‘ سے حضرت جبریل (علیہ السلام) مراد ہیں۔ (بقرہ آیت 78) ف 5 یعنی انبیاء کے متبعین میں یہ اختلاف اور پھر اس اختلاف کی بنا پر باہم قتال اللہ تعالیٰ کی مشیت و حکمت سے ہے جس کی لم ہمارے فہم سے بالا تر ہے ۔تقدیر کے متعلق ایک سائل کے جواب میں حضرت علی (رض) نے فرمایا : یہ ایک بھید ہے جو تم سے مخفی رکھا گیا ہے لہذا تم اسے معلوم کرنے کی کو شش نہ کرو۔ (فتح البیان) اس آیت میں آنحضرت (ﷺ) کو تسلی دی ہے کہ کفر و ایمان میں لوگوں کا اختلاف تو پہلے سے چلا آتا ہے کوئی نبی ایسا نہیں کہ ساری امت اس پر ایمان لے آئی ہو لہذا ان کے انکار سے آپ (ﷺ) رنجیدہ خاطر نہ ہوں۔ (کبیر )