سورة الأنبياء - آیت 91

وَالَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهَا مِن رُّوحِنَا وَجَعَلْنَاهَا وَابْنَهَا آيَةً لِّلْعَالَمِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور اس عورت (مریم علیہ السلام) کو یاد کر جس نے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی پھر ہم نے اس (عورت) میں اپنی روح پھونک دی اور اس کو اور اس کے بیٹے کو تمام جہان کے لئے نشانی قرار دیا (ف ١) ۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 5۔ یعنی نکاح سے بھی اور ناجائز صورتوں سے بھی۔ یہاں احصان (عصمت قائم رکھنے) کا لفظ عام معنی میں استعمال ہوا ہے کیونکہ قرآن نے متعدد مقامات پر تصریح کی ہے کہ حضرت مریم ( علیہ السلام) نے نہ نکاح کیا اور نہ وہ حرام کاری کی مرتکب ہوئیں۔ (مریم : 02) ف 6۔ مراد ہے حضرت عسیٰ ( علیہ السلام) کی۔ وہ جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت جبریل ( علیہ السلام) نے پھونکی تھی لیکن تعظیم و تشریف کے لئے اللہ تعالیٰ نے اسے اور اس کے پھونکنے کو اپنی طرف منسوب کیا ہے۔ مزید دیکھئے (نساء : 171) ف 7۔ قدرت الہٰی کی پیدائش بن باپ کے ہوئی تھی۔ اگر حضرت مریم شادی شدہ ہوتیں اور حضرت عیسیٰ کی پیدائش باپ ہوئی ہوتی تو ان کی کیا خصوصیت ہوتی جس کا ذکر سار جہان کیلئے بطور نشانی کیا جاتا۔ پھر دونوں کو ” ایۃ“ (ایک نشانی) کہنا باعتبار قصہ کے ہے یعنی ہم نے ان دونون کے قصے کو ایۃ بنادیا۔ (قرطبی)