وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ سَرِّحُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ ۚ وَلَا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوا ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ ۚ وَلَا تَتَّخِذُوا آيَاتِ اللَّهِ هُزُوًا ۚ وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَمَا أَنزَلَ عَلَيْكُم مِّنَ الْكِتَابِ وَالْحِكْمَةِ يَعِظُكُم بِهِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
اور جب عورتوں کو طلاق دو پھر وہ اپنی عدت کو پہنچیں تو انہیں خوبی کے ساتھ روک لو یا خوبی کے ساتھ چھوڑ دو اور ان کو ایذا دینے کے لئے نہ روکو ، کہ ان پر زیادتی کرو اور جس نے یہ کیا اس نے اپنی جان پر ظلم کیا اور خدا کی آیتوں کو ٹھٹھا نہ بناؤ اور خدا کا فضل جو تم پر ہے ‘ یاد کرو اور اس چیز کو (بھی یاد کرو) جو اس نے تم پر کتاب اور حکمت نازل کی ہے جس سے وہ تم کو سمجھاتا ہے اور اللہ سے ڈرو اور جانو کہ اللہ سب کچھ جانتا ہے ۔ (ف ١)
ف 3 ایعنی اگر تم اپنی بیویوں کو طلاق رجعی دو، ان کی عدت پوری ہونے سے پہلے تمہیں رجوع کا حق پہنچتا ہے مگر یہ رجوع محض ان کوستانے اور نقصان پہنچانے کی غرض سے نہ ہو کیونکہ ایسا کرناظلم وزیادتی اور احکام الہی سے مذاق کرنا ہے ،۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے مذاق مذاق میں اپنی بیوی کو طلاق دے دی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی :İ ای وَلَا تَتَّخِذُوٓاْلخĬ مگر آنحضرت (ﷺ) نے اس طلاق کو نافذ فرمادیا۔ (ابن کثیر) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ تین چیزوں میں مذاق بھی سنجیدگی قرار پائیگی یعنی نکاح، طلاق۔ اور رجوع، (ابن کثیر بحوالہ جامع ترمذی) ف 4 یہاں الْحِكْمَةسے مراد سنت ہے یعنی کتاب وسنت کی جو نعمت تم پر نازل کی ہے اسے مت بھو لو، یہ دونوں وحی الہی میں اور دلیل ہونے میں دونوں برابر ہیں لہذا منکر حدیث کا بھی وہی حکم ہے جو منکر قرآن کا ہے۔(ترجمان) مطلب یہ ہے کہ ان آیات میں بیان کردہ عائلی مسائل کو حدیث پاک کی روشنی میں زیر عمل لانا ضروری ہے۔ (م، ع)