سورة البقرة - آیت 229

الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ۗ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَن يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ ۗ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

طلاق دوبار ہے پھر خوبی کے ساتھ روک لینا ہے یا نیکی سے رخصت کرنا اور تمہیں حلال نہیں کہ اپنے دیئے ہوئے میں سے کچھ ان سے واپس لو ۔ مگر جب وہ دونوں ڈریں کہ خدا کے قاعدے قائم نہ رکھ سکیں گے پس اگر تم ڈرو کہ وہ دونوں خدا کے قاعدے قائم نہ رکھ سکیں گے تو ان دونوں پر کچھ گناہ نہیں کہ عورت بدلہ دے کے چھوٹ جائے ، یہ خدا کے مقرر کئے ہوئے قواعد ہیں سو تم ان سے باہر نہ ہو اور جو کوئی خدا کے مقرر کئے ہوئے قاعدوں (ف ١) سے باہر ہوا ، سو وہی لوگ ظالم ہیں ۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف5 حضرت عائشہ (رض) اور دیگر صحابہ کی روایات کے بموجب ابتدائے ہجرت میں جا ہلی دستور کے مطابق مرد عورتوں کو کئی کئی بار طلاق دیتے اور عدت کے اندر رجوع کرتے رہتے تھے۔ مقصد بیوی کو تنگ کرنا ہو تا تھا اس صورت حال کو روکنے کے لیے یہ آیت نازل ہوئی کہ رجعی طلاق زیادہ سے زیادہ دو مرتبہ ہے اس کے بعد’’ إِمۡسَاكُۢ بِمَعۡرُوفٍ ‘‘یعنی یا تو عدت کے اندر رجوع کرنا ہے اور یا’’ تَسۡرِيحُۢ بِإِحۡسَٰنٖ‘‘ یعنی حسن سلوک کے ساتھ تیسری طلاق دینا ہے۔ یہ تفسیر مر فوعا ثابت ہے اور ابن جریر نے اس کو ترجیح دی ہے۔ بعض نے’’ أَوۡ تَسۡرِيحُۢ بِإِحۡسَٰنٖ ‘‘سے یہ مراد لی ہے کہ دو طلاق کے بعد رجوع نہ کرے حتٰی کہ عدت گزارنے کے بعد وہ عورت خود بخود اس سے الگ ہوجائے (ابن جریر۔ ابن کثیر ) ف 6 عورت اگر خاوند سے طلاق کا مطالبہ کرے اور خاوند طلاق دیدے تو اسے طلاق خلع کہتے ہیں یوں تو خاوند کے لیے عورت کو تنگ کر کے حق مہر واپس لینا جائز نہیں ہے مگر خلع کی صورت میں خاوند معاوضہ لے کر طلاق پر راضی ہو تو یہ واپسی جائز ہے۔ مسئلہ: طلاق خلع کی عدت ایک حیض ہے۔ (ترمذی )