وَيَسْأَلُونَكَ عَن ذِي الْقَرْنَيْنِ ۖ قُلْ سَأَتْلُو عَلَيْكُم مِّنْهُ ذِكْرًا
اور وہ (یہود) تجھ سے (اے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ذوالقرنین کا حال پوچھتے ہیں ، تو کہہ ، اب اس کا ذکر میں تمہارے سامنے پڑھتا ہوں ۔
ف 2 ان پوچھنے والوں سے مراد کفار مکہ میں جنہوں نے یہود کے مشورہ سے تین سوالات بطور امتحان پیش کئے تھے۔ ایک روح کے بارے میں دوسرا اصحاب کہف کے بارے میں اور تیسرا ذوالقرنین کے بارے میں …قرآن میں ذوالقرنین سے مراد کون ہے ؟ اس بارے میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں عض کہتے ہیں کہ یہ یونان کے سکندر اعظم کا لقب تھا جس نے اسکندریہ کی بنیاد رکھی تھی۔ امام رازی نے تاریخی روایات پر اعتماد کرتے ہوئے اسی کو ترجیح دی ہے۔ اس کا زمانہ حضرت مسیح سے تقریباً تین سو سال قبل کا ہے۔ مگر یہ بات اس لئے صحیح معلوم نہیں ہوتی کہ قرآن کے انداز بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ذوالقرنین ایک خدا پرست اور انصاف پسند فرمانروا تھا حالانکہ سکندر اعظم کافر اور بت پرست بادشاہ تھا۔ بعض کے نزدیک اس سے مراد ایک اور بادشاہ ہے جو حضرت ابراہیم کا ہم عصر تھا اور حضرت ابراہیم کی دعا سے ہی اللہ تعالیٰ نے اسے خارق عادت اسباب و وسائل عطا فرمائے اور اس کا وزیر خضر تھا اس لئے خضر کے قصہ کے ساتھ اس کا قصہ بیان فرمایا۔ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں اور ابن کثیر نے اس کا نام بھی اسکندر بیان کیا ہے اسکندر یونانی اور اس کے درمیان تقریباً دو ہزار سال کا زمانہ ہے۔ مولانا ابوالکام آزاد نے ترجمان میں اس کے متعلق قرآن کی بیان کردہ صفات و خصوصیات کو ایران کے بادشاہ خورس پر چسپاں کرنے کی کوشش کی ہے اور صاحب قصص القرآن ج و 229-117) نے مولانا آزاد کی تصویب کی ہے۔ بہرحال ذوالقرنین سے کوئی بھی مراد ہو قرآن نے جس انداز سے اس کا ذکر کیا ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ وہ اپنی عظیم الشان فتوحات اور عدل و انصاف کی وجہ سے نہ صرف عہد رسالت کے یہود کے درمیان ایک معروف شخصیت تھی بلکہ مشرکین عرب بھی اس کے حال سے واقف تھے کیونکہ قدیم شعرائے عرب نے اپنے اشعار میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔ شاید اسے ذوالقرنین اس لئے کہتے ہوں کہ اس نے دنیا کے دونوں کناروں (مشرق و مغرب) کی مسافت طے کی تھی۔ اس کی وجہ سمیہ میں دیگر اقوال بھی منقول ہیں۔ البدایہ و منتہایۃ میں حافظ ابن کثیر نے بہت مفصل بحث کی ہے۔ (ابن کثیر شکافی)