قَالَ لَهُ مُوسَىٰ هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَىٰ أَن تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا
موسیٰ (علیہ السلام) نے اس سے کہا کیا میں اس شرط پر تیری پیروی کروں کہ جو بھلائی تجھے سکھلائی گئی ہے تو مجھے سکھلائے ۔
ف 6 یعنی اگر اجازت ہو تو چند روز آپ کے ساتھ رہ کر اس علم کا کچھ حصہ حاصل کرلوں جو خاص طور پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو سکھایا ہے حضرت موسیٰ(علیہ السلام) گو اولوالعزم پیغمبر تھے لیکن بعض جزئیات کا جو علم حضرت خضر کو دیا گیا تھا وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام)کو حاصل نہیں تھا کیونکہ ان کا تعلق حضرت موسیٰ کی شریعت سے نہیں تھا لہذااس سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شان میں کوئی فرق نہیں آتا پیغمبر اپنے زمانے کا سب سے بڑا عالم ہوتا ہے مگر جن باتوں کا تعلق اس پیغمبر کی شریعت سے نہیں ہوتا ان کا نہ جاننا اس پیغمبر کی شان کے خلاف نہیں ہوتا۔ اسی بنا پر آنحضرتﷺ نے فرمایا(أنتم اعلم بامور دنياكم) اور پھر جو علوم حضرت موسیٰ کو ملے تھے ان کا علم حضرت خضر کو نہ تھا جیسا کہ صحیح بخاری کی روایت میں تصریح ہے۔ علامہ دوانی نے حواشی جدید میں اس کی خوب تحقیق کی ہے۔ (روح المعانی)