سورة الكهف - آیت 65

فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَا آتَيْنَاهُ رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا وَعَلَّمْنَاهُ مِن لَّدُنَّا عِلْمًا

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

پھر دونوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ پایا جس پر ہم نے اپنی طرف سے رحمت کی تھی اور اپنے پاس سے ہم نے اسے علم سکھلایا تھا ۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 3 عَبۡدٗا مِّنۡ عِبَادِنَآ کے نام میں اختلاف ہے بعض نے ان کا نام ” الیسع“ اور بعض نے ” الیاس نقل کیا ہے مگر جمہور مفسرین نے ان کا نام خضر ہی بتایا ہے جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے پھر اس میں بھی اختلاف ہے کہ ان کو خضر کیوں کہا جاتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ایک مرتبہ وہ سفید زمین پر بیٹھے تو وہ جگہ سرسبز ہو کر لہلہانے لگی اس سے ان کا لقب خضر مشہور ہوگیا۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں ایک حدیث سے بھی ثابت ہے۔ امام نووی لکھتے ہیں والصواب الاول یعنی یہی وجہ لقب درست ہے۔ (روح ،شوکانی) ف 4 جمہور علما کے نزدیک یہاں رحمت سے مراد وحی اور نبوت ہے اور قرآن میں متعدد مواضع پر یہ لفظ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے جمہور مفسرین کے نزدیک حضرت خضر نبی تھے جس کی شہادت متعدد روایات سے بھی ملتی ہے۔ جمہور مشائخ اور صوفیہ اس بات کے قائل ہیں کہ وہ اب بھی زندہ ہیں اور اس سلسلہ میں زیادہ تر کہا وات اور بعض واقعات سے تائید حاصل کی گئی ورنہ ان کے پاس کوئی صحیح دلیل نہیں ہے۔ دوسری طرف محققین علما … جن میں امام بخاری ابن تیمیہ اور حافظ ابن حجر جیسے اکابر بھی شامل ہیں … کی رائے یہ ہے کہ وہ اب زندہ نہیں ہیں۔ حافظ ابن القیم فرماتے ہیں کہ ان کے اب تک زندہ رہنے کے بارے میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے بلکہ جن احادیث میں ان کی زندگی کا ذکر ہے وہ سب کی سب جھوٹی ہیں۔ امام بخاری سے حضرت الیاس اور خضر کے بارے میں سوال کیا گیا کہ وہ اب بھی زندہ ہیں؟ امام بخاری نے فرمایا یہ کیسے ہوسکتا ہے جب کہ آنحضرتﷺ نے اپنی وفات سے کچھ عرصہ پہلے فرما دیا، (لَا يَبْقَى علی راس المائۃمِمَّنْ ‌هُوَ ‌الْيَوْمَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ أَحَدٌ) کہ آج روئے زمین پر جتنے بھی رہنے والے ہیں ایک سو سال کے بعد ان میں سے کوئی بھی زندہ نہیں رہے گا۔ اور صحیح مسلم میں(‌مَا ‌مِنْ ‌نَفْسٍ ‌مَنْفُوسَةٍ)ہے اور(عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ) کے الفاظ نہیں ہیں جن میں کسی قسم کی تاویل کی گنجائش نہیں۔ حافظ ابن الصلاح نے لکھا ہے کہ خضر آج بھی زندہ ہیں اور اسے جمهور علما کی طرف منسوب کیا ہے مگر یہ کوئی دلیل نہیں ہے۔ الغرض صحیح رائے محد ثین کی ہے کہ وہ اب زندہ نہیں ہیں۔آلوسی زادہ نے روح المعانی میں اس پر مفصل بحث کی ہے اور طرفین کے دلائل بھی ذکر کئے ہیں۔ ف 5 یعنی بواسطه وحی کے ہم نے ان کو تعلیم دی۔ عام اس سے کہ وہ وحی ظاہری ہو یعنی فرشتے کی زبان سے سنی ہو یا اشارہ اور الہام کے طور پر حاصل کی ہو جسے حدیث میں’’ نفث فی الروع“ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس آیت سے صوفیہ نے علم لدنی کا ثبوت پیش کیا ہے اور شریعت کے علم کو علم ظاہر قرار دے کر اس کو علم باطنی کا درجہ دیا ہے حتیٰ کہ بعض نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ علم باطن کے احکام علم شریعت اور ظاہر کے خلاف ہوتے ہیں مگر محققین صوفیہ نے اس کا انکار کیا ہے اور لکھا ہے علم تصوف کا زبده تو نتیجہ هےکتاب و سنت پر عمل کا ، پھرشریعت کے مخالف کیسے ہو سکتے ہیں اور مخلوق کو جو علم بھی حاصل ہوا ہے وہ علم ظاہرہی ہے ورنہ علم باطن تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ مختص ہے۔