كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ ۚ وَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ إِلَّا الَّذِينَ أُوتُوهُ مِن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۖ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ ۗ وَاللَّهُ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
(پہلے) آدمیوں کا ایک ہی دین تھا ، (ف ١) پھر خدا نے نبیوں کو خوشی اور ڈر سنانے والا بنا کے بھیجا ، اور سچی کتاب ان کے سات نازل کی ، تاکہ لوگوں کے درمیان ان کی اختلافی باتوں میں فیصلہ کرے کتاب میں صاف احکام پہنچنے کے بعد انہیں لوگوں نے جن کو وہ دی گئی تھی ، جھگڑا ڈالا اور یہ آپس کی ضد سے ہوا ، سو خدا نے ایمانداروں کو اس سچی بات کی جس میں وہ جھگڑ رہے تھے اپنے حکم سے ہدایت کی ہے اور اللہ جس کو چاہے سیدھی راہ بتائے ۔
ف 4 اس آیت میں اس تاریخی حقیقت کا انکشاف فرمایا ہے کہ انسانیت کی ابتدا کفرو شرک اور مظاہر پرستی سے نہیں بلکہ خالص دین توحید سے ہوتی ہے ابتدا میں تمام انسان ایک ہی دین توحید رکھتے تھے اور ایک ہی ان کی ملت تھی، حضرت آدم (علیہ السلام) کے بعد حسب تصریح ابن عباس دس قرنوں (ایک ہزار سال) تک تمام لوگ موجود تھے اس کے بعد شیطان کے بهکانے سے ان میں شرک آیا اور اختلاف پیدا ہوئے۔ تب اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو بھیجا اور پھر مسلسل انبیاء آتے رہے اور ان پرکتابیں نازل ہوتی رہیں تاکہ ان کو اختلافات سے نکال کر ہدایت الہی کی طرف لایا جائے پس آیت میں فَبَعَثَ ٱللَّه الخ۔ کا عطف مخذف پر ہے یعنی فاختلفو ا فَبَعَثَ ٱللَّه ۔ (کبیر، ابن جریر دیکھئے سورت یو نس آیت 19۔) ف 1 یعنی پہلی امتوں میں ضد اور سرکشی کی وجہ سے اختلافات پیدا ہوئے اور اس کی بدولت وہ گمراہو گئیں اب اللہ تعالیٰ نے اپنا آخری نبی بھیج کر اور ان پر اپنی آخری کتاب نازل فرماکر تمام اختلافات کا فیصلہ کردیا اور اپنی توفیق خاص (باذنہ) سے مومنوں کو صراط مستقیم کی طرف ہدایت کردی ہے ( بیضاوی۔ فتح البیان) واضح رہے کہ امت محمد یہ میں بھی شروع میں اختلاف نه تھے۔سلف صالح تمام کے تمام قرآن و حدیث کی بلا واسطہ اتباع کرتے رہے پھر جب دین میں غلط رائے کے خام اجتہاد اور تقلید پر جمود پیداہو گیا لوگ آراء اور اہوا پرستی کو دین سمجھنے لگ گئے تو امت فرقوں میں بٹ کر تباہ ہوگئی۔ اس سے صرف متبع سلف (اہل حدیث) ہی محفوظ رہے۔ (للہ الحمد)، ( ت بتصرف) صحیحین میں بروایت حضرت عائشہ (رض) مذکور ہے کہ آنحضرت (ﷺ) تہجد میں دعا استفتاح میں یہ پڑھا کرتے۔ (اهْدِنِي لِمَا اخْتُلِفَ فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِكَ، إِنَّكَ تَهْدِي مَنْ تَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ) ( ابن کثیر)