نَّحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ نَبَأَهُم بِالْحَقِّ ۚ إِنَّهُمْ فِتْيَةٌ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ وَزِدْنَاهُمْ هُدًى
ہم ٹھیک ٹھیک تجھے ان کا قصہ سناتے ہیں ، وہ چند جوان تھے کہ اپنے رب پر ایمان لائے اور ہم نے ان کو ہدایت زیادہ دی (ف ١) ۔
ف 1 سلف و خلف رحم اللہ میں سے بہت سے مفسرین کا بیان ہے کہ یہ چند آدمی شہزادے تھے۔ ان کی قوم بتوں کی پوجا کرتی اور ان کے نام پر چڑھاوے چڑھاتی تھی لیکن اللہ نے انہیں توفیق دی اور انہوں نے توحید کی راہ اختیار کی۔ اس پر ان کا بادشاہ جس کا نام دقیانوس بتایا جاتا ہے۔ ان کے درپے آزاد ہوگیا اور پوری قوم کو ان کے خلاف بھانے لگا اسی کشمکش میں انہوں نے فتنہ سے بچنے کے لئے غار میں پناہ لی۔ عموماً قدیم وجیہہ محققین کا خیال یہ ہے کہ ان کا زمانہ حضرت عیسیٰ کے بعد کا ہے اور یہ کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ ہی کا دین قبول کیا تھا مگر ابن کثیر نے حضرت عیسیٰ سے پہلے کا زمانہ بتایا ہے کیونکہ اگر وہ عیسیٰ کے دین پر ہوتے تو یہود اس قصہ کو اتنی اہمیت نہ دیتے۔ واللہ علم شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ یہ بادشاہ کے خدام اور نوکر تھے جو بت پرست بادشاہ سے چھپ کر شہر سے نکل گئے۔ (موضح)