سورة الإسراء - آیت 97

وَمَن يَهْدِ اللَّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ ۖ وَمَن يُضْلِلْ فَلَن تَجِدَ لَهُمْ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِهِ ۖ وَنَحْشُرُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَىٰ وُجُوهِهِمْ عُمْيًا وَبُكْمًا وَصُمًّا ۖ مَّأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنَاهُمْ سَعِيرًا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور جسے اللہ ہدایت کرے وہی ہدایت پر ہے اور جسے گمراہ کرے ان کے لئے اس کے سوا تو کسی کو رفیق نہ پائے گا ، اور ہم قیامت کے دن انہیں اوندھے منہ (ف ٢) اندھے اور گونگے اور بہرے کرکے اٹھائیں گے ۔ ان کا ٹھکاناہ جہنم ہے جب جہنم بجھنے لگے گی ہم ان پر زیادہ آگ بھڑکادیں گے ۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 1 نبوت پر ان کے شبہات کا جواب دینے کے بعد اب وعید فرمائی مطلب یہ ہے کہ کوئی انسان اپنے بل بوتے پر یا اپنی عقل، علم یا کسی اور چیز کی بنیاد پر راہ حق نہیں پا سکتا اور نہ اس پر ثابت قدم رہ سکتا ہے بلکہ یہ محض اللہ تعالیٰ کی توفیق اور دستگیری ہے جو کسی کو راہ حق دکھاتی ہے اور اگر انسان کی بدبختی اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی توفیق انسان کے شامل حال نہ ہوت ودنیا کی کوئی طاقت اسے راہ راست پر نہیں لا سکتی۔ اس سے مقصود آنحضرت کو تسلی دینا ہے۔ (کبیر) ف 2 یعنی منہ کے بل چلیں گے جیسے دنیا میں پائوں کے بل چلتے تھے۔ حضرت انس سے روایت ہے کہ صحابہ کرام نے دریافت کیا : اے اللہ کے رسولچ لوگ منہ کے بل کیسے چلائے جائیں گے؟ فرمایا جس ذات نے انہیں پائوں کے بل چلایا وہ انہیں منہ کے بل بھی چلا سکتی ہے۔ (بخاری مسلم) یا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن انہیں منہ کے بل گھسیٹ کر دوزخ میں ڈالا جائے گا۔ جیسے فرمایا : یوم یسحبون فی النار علی وجوھھم (دیکھیے سورۃ القمر 48) فو اندھے، گونگے اور بہرے یعنی جمال الٰہی کے دیدار اور جنت کی نعمتوں کے دیکھنے سے محروم ہوں گے اور نہ ہی کوئی خوش کن خبر بن سکیں گے اور نہ کوئی دلیل بیان کرنے کی طاقت ہوگی ورنہ اس حواس خمسہ ظاہرہ کے اعتبار سے تو وہ بہت سننے اور دیکھنے والے ہوں گے۔ ہوسکتا ہے کہ ان کی مختلف حالتوں کے اعتبار سے فرمایا ہو۔ (دیکھیے مریم 38) ف 4 یعنی عذاب کبھی ہلکا نہ ہوگا جیسے فرمایا : لاجفف عنھم العذاب (بقرہ 86)