إِنَّ رَبَّكَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ وَيَقْدِرُ ۚ إِنَّهُ كَانَ بِعِبَادِهِ خَبِيرًا بَصِيرًا
تیرا رب جس کی چاہے روزی فراخ کرے اور جس کی چاہے تنگ کرے ، وہ اپنے بندوں کا دانا بینا ہے ۔
ف 12 ہر ایک کی مصلحت خوب سمجھتا ہے کہ کسے دیا جائے اور کسے نہ دیا جائے ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” میرے بعض بندے ایسے ہیں جن کو اگر فقیر کر دوں تو ان کا دین بگڑ جائے اور بعض فقیری میں اچھے رہتے ہیں اگر میں انہیں مالدار کر دوں تو ان کا دین بگڑ جائے۔ (ابن کثیر) اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے درمیان رزق کی تقسیم میں جو فرق رکھا ہے وہ ایک فطری چیز ہے جس کی حکمت و مصلحت اللہ تعالیٰ کے علم میں ملے اس نے مصنوعی طریقوں سے زبردستی ختم کرنا فطرت سے جنگ کرنا ہے جو کبھی پائیدار اور فائدہ مند ثابت نہیں ہو سکتی۔ البتہ اس فرق کا اعتدال پر رہنا ضروری ہے۔ اس بنا پر اسلام نے ایک طرف تو ناجائز طریقوں سے استحاصل کو حرام قرار دیا ہے اور دوسری طرف جائز طریقوں سے کمائی ہوئی دولت کو زکوۃ صدقات میراث اور دوسرے احکام کے ذریعے معاشرے میں پھیلا دنیے کا حکم دیا ہے۔ ان احکام پر عمل کرنے کی صورت میں معاشرے میں امیری غریبی میں اعتدال قائم رہے گا، نہ تو سرمایہ داری کے مظالم پیدا ہو سکیں گے اور نہ ہی اس فطری فرق کو زبردستی اور مصنوعی طریقوں سے ختم کرنے سے وہ خرابیاں پیدا ہونگی جو روس، چین اور دوسرے کمیونسٹ ممالک میں پیدا ہوچکی ہیں اور جن کے بعد انسان انسانیت کے مرتبہ سے گر کر حیوانت سے بھی نیچے پہنچ گیا ہے اور عوام کو ان کی فطری آزادی سے بھی محروم کردیا گیا ہے۔